بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hadid : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ : تسبیح کی ہے۔ کرتی ہے لِلّٰهِ : اللہ ہی کے لیے مَا فِي السَّمٰوٰتِ : ہر اس چیز نے جو آسمانوں میں ہے وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین میں وَهُوَ الْعَزِيْزُ : اور وہ زبردست ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
جو مخلوق آسمانوں اور زمین میں ہے خدا کی تسبیح کرتی ہے اور وہ غالب (اور) حکمت والا ہے
1۔ 3۔ یہ تسبیح کی سورتیں بعض تو سبح کے لفظ سے شروع ہوتی ہیں اور بعض یسبح کے لفظ سے۔ جس سے یہ مطلب کہ زمین و آسمان کی کل چیزیں ہر زمانہ میں ہر وقت اللہ کو یاد کرتی اور اس کے نام کی تسبیح پڑھتی ہیں۔ سورة بنی اسرائیل میں گزر چکا ہے کہ پہاڑ ‘ پیڑ ‘ ان سب بیجان چیزوں کی ایک طرح کی خاص تسبیح ہے جو انسان کی سمجھ سے باہر ہے اس میں متاخرین مفسروں نے جو کچھ لکھا ہے وہ اس تفسیر میں لکھا جاسکتا کیونکہ یہ تفسیر بالکل سلف کے اقوال کے تابع ہے۔ عزیز کے معنی یہ ہیں کہ اس کی قدرت کے آگے کوئی چیز مشکل نہیں۔ حکیم کے یہ معنی ہیں کہ اس کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہے لہ ملک السموت والارض کا مطلب یہ ہے کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے وہ بھی اس کا محتاج ہے اور اس کے حکم کا تابع ہے۔ یحییٰ و یمیت کا مطلب یہ ہے کہ ایک دفعہ اس نے انسان کو پیدا کیا اور وقت مقررہ پر اس کی قبض روح کرے گا اور نیک و بد کے حساب و کتاب کے لئے پھر وہ انسان کو زندہ کرے گا۔ وھو علی کلی شیء قدیر کا یہ مطلب ہے کہ یہ سب باتیں اس کی قدرت میں ہیں کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں۔ سورة حدید ‘ سورة حشر ‘ سورة صف ‘ سورة جمعہ اور سورة تغابن۔ ان سورتوں کو مسبحات کہتے ہیں۔ مسند امام احمد ترمذی 1 ؎‘ نسائی وغیرہ میں عرباض بن ساریہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ سونے سے پہلے ان سورتوں کو پڑھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ان سورتوں میں ایک آیت ہزار آیتوں سے بہتر ہے ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے اگرچہ اس حدیث کی سند میں ایک راوی بقیہ بن ولید ضعیف ہے لیکن اس کی روایت مقبول ہے۔ حافظ ابن 2 ؎ کثیر نے لکھا ہے جس آیت کا ذکر اس حدیث میں ہے وہ آیت ھو الاول والاخر والظاہر و الباطن ہے۔ صحیح مسلم 3 ؎‘ ترمذی ‘ بیہقی وغیرہ میں ابوہریرہ ؓ سے جو روایت ہے اس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے الاول کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی ذات سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی۔ الاخر کے معنی یہ ہیں کہ تمام مخلوقات فنا ہوجانے کے بعد اسی کی ذات باقی رہے گی الظاہر کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کا حکم سب پر غالب ہے اور سب اس کے زیر حکم ہیں۔ الباطن کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے دل کا حال جانتا ہے۔ وھو بکل شیء علیم کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک چیز اسی کی پیدا کی ہوئی ہے اس لئے کسی چیز کا ظاہرباطن کوئی حال اس کے علم سے باہر نہیں ہے۔ (1 ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فیمن یقراء من القران عند المنام ص 199 ج 2۔ ) (2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 302۔ ) (3 ؎ صحیح مسلم باب الدعاء عندالنوم ص 348 و جامع ترمذی ابواب الدعوات ص 198 ج 2۔ )
Top