Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hadid : 22
مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَا١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌۚۖ
مَآ اَصَابَ : نہیں پہنچتی مِنْ : سے مُّصِيْبَةٍ : کوئی مصیبت فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ : اور نہ تمہارے نفسوں میں اِلَّا : مگر فِيْ كِتٰبٍ : ایک کتاب میں ہے مِّنْ قَبْلِ : اس سے پہلے اَنْ نَّبْرَاَهَا ۭ : کہ ہم پیدا کریں اس کو اِنَّ ذٰلِكَ : بیشک یہ بات عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر يَسِيْرٌ : بہت آسان ہے
کوئی مصیبت ملک پر اور خود تم پر نہیں پڑتی مگر پیشتر اس کے کہ ہم اس کو پیدا کریں ایک کتاب میں (لکھی ہوئی) ہے (اور) یہ (کام) خدا کو آسان ہے
22۔ 24۔ اس آیت کی تفسیر میں علماء مفسرین 3 ؎ کے چار قول ہیں پہلا قول تو یہ ہے کہ جو جانی یا مالی کوئی آفت یا مصیبت لوگوں پر دنیا میں آتی ہے اس مصیبت کے پیدا کرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اس مصیبت کے پہنچنے کا سارا حال لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ جن لوگوں پر وہ مصیبت اور آفت آتی ہے ان کے پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس مصیبت کا حال لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ زمین کے پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس مصیبت کا حال لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے چوتھا قول یہ ہے کہ اس مصیبت کے اور مصیبت والوں کے اور تمام دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس مصیبتیں کا حال لوح محفوظ میں لکھ ہے۔ بعض مفسروں نے لکھا ہے کہ یہ آخری قول سب قولوں سے اچھا ہے۔ یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ صحیح 1 ؎ مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمرو کی حدیث کا مضمون یہ ہے کہ زمین و آسمان کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کا حال لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سب سے آخری قول جو اوپر بیان کیا گیا ہے وہی قول اس صحیح حدیث کے مضمون کے موافق ہے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ ایسا آدمی تو دنیا میں کوئی نہیں ہے کہ راحت سے کسی قدر خوشی اور مصیبت سے کسی قدر رنج اس کے دل پر نہ ہوتا ہو اس لئے مطلب آیت کا یہ ہے ہے کہ رنج اور مصیبت کے وقت بالکل بےصبر ہوجانا اور راحت کے وقت اترانا نہیں چاہئے بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ ہر طرح کا رنج اور ہر طرح کی راحت تقدیر الٰہی کے موافق ہے۔ بندہ کی بےصبری اور بندہ کا اترانا بےفائدہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ ن آیت آیت کے آگے اترانے والوں کی مذمت فرمائی ہے حضرت عبد اللہ 3 ؎ بن عباس نے یہ بھی فرمایا کہ اس آیت میں آیت میں دنیا کی مصیبت اور برائی کا ذکر ہے۔ شیطان کے بہکانے سے دین کی کوئی برائی آدمی کو پیش آجائے تو اس پر ضرور بڑا قلق کرنا چاہئے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کا یہ قول حضرت ابی امامہ کی اس حدیث کے موافق ہے جو مسند 4 ؎ امام احمد کی روایت سے اوپر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایمان دار شخص کی نشانی یہ ہے کہ اس کو دین کی بری بات بری اور بھلی بات بھلی معلوم ہونے لگتی ہے۔ فرقہ قدریہ کا ذکر اوپر گزر چکا ہے کہ وہ لوگ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے سب چیزوں کا اندازہ ہونے اور لوح محفوظ میں لکھے جانے کے قائل نہیں ہیں اور کہتے ہیں جو کچھ دنیا میں ہوتا ہے وہ بیری کسی ازلی اندازہ اور علم الٰہی کے از سر نو ہوتا ہے اور ہر ایک چیز کے ہوجانے کے بعد اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہوجاتا ہے۔ مفسرین 5 ؎ نے لکھا ہے کہ اس آیت سے فرقہ قدریہ مذہب کی پوری غلطی ثابت ہوتی ہے کیونکہ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ لوح محفوظ میں علم ازلی الٰہی کے موافق پہلے سب کچھ لکھا جا چکا ہے اب دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اسی کے موافق ہوتا ہے۔ تمام ملک کی آفت جیسے عام قحط یا عام وبا جان کی آفت جیسے عزیز و اقارب کا مرجانا انسان کو آئندہ کا حال معلوم نہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں انسان کو سمجھایا ہے کہ اللہ کا علم ایسا نہیں ہے۔ اس کے علم میں حال کی موجود چیزیں اور آئندہ کی موجود ہونے والی چیزیں دونوں برابر ہیں۔ اس واسطے اس کو دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے تمام دنیا کا حال لوح محفوظ میں لکھ لینا کچھ مشکل نہیں۔ اور یہ بھی سمجھایا کہ اس لوح محفوظ کے نوشتہ کے حال سے تم لوگوں کو اس لئے خبردار کیا ہے تاکہ تم آفت کے وقت بہت رنج اور بےصبری نہ کرو اور یہ سمجھ لو کہ جو آفت آئی وہ تقدیر کے نوشتہ کے موافق ہے جو کبھی ٹلنے والی نہیں معتبر سند سے ابوہریرہ 1 ؎ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کا درجہ عقبیٰ میں بڑھانا چاہتا اور جب ان بندوں کے عمل اس درجہ کے قابل نہیں ہوتے تو ان پر کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے جن پر ان کو صبر کی توفیق دیتا ہے جس صبر کے اجر میں وہ اس درجہ کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اس قسم کی اور بھی صحیح حدیثیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے نصیب میں جو مصیبت اور آفت لکھی گئی ہے وہ حکمت سے خالی نہیں۔ مصیبت کے بعد راحت کے باب میں یہ نصیحت فرمائی ہے کہ راحت کے وقت اتراؤ نہیں کیونکہ دنیا کی راحت دنیا کی راحت والے سب ناپائیدار چیزیں ہیں۔ ایسی ناپائیدار حالت ہرگز اترانے کے قابل نہیں ہے۔ آگے فرمایا کہ دنیا کی چند روزہ راحت پر اترانے سے تکبر ‘ بخل ‘ غرض ایسی ایسی باتیں انسان میں پیدا ہوجاتی ہیں جو اللہ کو پسند نہیں۔ پھر فرمایا کہ جو شخص اللہ کی نصیحت پر عمل کرنے سے منہ موڑے گا تو اللہ کو اس کی کچھ پروا نہیں۔ لیکن اس کے سب کام حکمت سے بھرے ہوئے لائق حمد و ثنا کے ہیں جو کسی طرح منہ موڑنے کے قابل نہیں۔ معتبر سند سے طبرانی کبیر 2 ؎ اور مستدرک حاکم میں عبد اللہ بن عمر کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ اترانے والے لوگ جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے رو برو کھڑے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان پر بہت غصہ سے نگاہ ڈالے گا۔ ان آیتوں میں جو اترانے کی ممانعت ہے یہ حدیثیں گویا اس کی تفسیر ہیں۔ (3 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 313 ج 4۔ ) (1 ؎ صحیح مسلم باب حجاج ادم و موسیٰ علیھما السلام ص 335 ج 2۔ ) (3 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 176 ج 6۔ ) (4 ؎ مشکوٰۃ شریف کتاب الایمان فصل ثالث ص ) (5 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 314 ج 4۔ ) (1 ؎ الترغیب و الترہیب فی الصبر ص 527 ج 4۔ ) (2 ؎ الترغیب و الترہیب۔ الترغیب فی التواضع والترھیب من الکبر الخ ص 823 ج 3۔ )
Top