Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 116
وَ اِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر تُطِعْ : تو کہا مانے اَكْثَرَ : اکثر مَنْ : جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں يُضِلُّوْكَ : وہ تجھے بھٹکا دیں گے عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ اِنْ : نہیں يَّتَّبِعُوْنَ : بیروی کرتے اِلَّا : مگر (صرف) الظَّنَّ : گمان وَاِنْ هُمْ : اور نہیں وہ اِلَّا : مگر يَخْرُصُوْنَ : اٹکل دوڑاتے ہیں
اور اکثر لوگ جو زمین پر آباد ہیں (گمراہ ہیں) اگر تم ان کا کہا مان لو گے تو وہ تمہیں خدا کا راستہ بھلا دیں گے۔ یہ) (محض خیال کے پیچھے چلتے اور نرے اٹکل کے تیر چلاتے ہیں۔
(116 ۔ 117) ۔ سورة مائدہ میں گذر چکا ہے کہ قبیلہ خزاعہ کے ایک سروار عمر بن لحی بن قمعہ نے مکہ میں بت پرستی اور بتوں کے نام پر جانور چھوڑ کر ان کو حرام ٹھہرانے کی رسم پھیلائی اس رسم میں یہ بھی ایک بات تھی کہ مردار جانور کو اہل مکہ حلال جانتے تھے غرض ان حرام حلال ٹھہرائے ہوئے جانوروں کہ باب میں مشرکین مکہ اکثر آنحضرت ﷺ سے طرح طرح کا جھگڑا کیا کرتے تھے۔ خاص طور پر مردار جانور کا جھگڑا تو آگے کی آیتوں میں آتا ہے ان آیتوں میں مشرکین مکہ کے عام جھگڑوں کے متعلق یہ فرمایا ملت ابراہیمی شریعت موسوی شریعت عیسوی کی بگاڑ کر آج کل اس زمین پر یہی لوگ ہیں جن کی یہ اٹکل ان کا دین ایمان ہے کہ جو رسمیں ان کے لیے ان کے بڑے بوڑھے ٹھہرا گئے ہیں وہی ان کا اصل دین ہے۔ اس لیے ان لوگوں کے جھگڑوں میں سے کوئی بات نہ سنی جاوے کیونکہ ان جھگڑوں سے اصل مقصد ان لوگوں کا یہ ہے کہ دین الٰہی کی باتوں کو یہ لوگ مٹا دیویں اور اپنی قدیمی رسموں کو قائم رکھیں لیکن یہ ہرگز نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کا خود حامی اور مددگار ہے۔ ان لوگوں کے یہ خیال ہے کہ ان کے بڑے بوڑھے جو رسمیں ٹھہرا گئے ہیں وہی اصل دین ہے یہ خیال ان کا بالکل غلط ہے اصل دین سے برگشتہ لوگوں کا اور اصل دین کے پابند لوگوں کا حال اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے جس دن اللہ تعالیٰ کے علم کے موافق نیک وبد کا فیصلہ ہوگا اس دن ان لوگوں کو معلوم ہوجاوے گا کہ اصل دین کی باتیں وہی تھیں جس کے یہ لوگ منکر تھے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث اوپر گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں لوگوں کو ہتھیلی بھر کر انہیں آگ میں گرنے سے روکتا ہوں لیکن لوگ آگ میں گرنے کی ایسی جرأت کر رہے ‘ ہیں جس طرح کیڑے پتنگے روشنی پر گرتے ہیں یہ حدیث ان آیتوں کو گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ دین الٰہی کی باتوں کا پابند کر کے اللہ کے رسول لوگوں کو دوزخ کی آگ سے بچانا چاہتے ہیں لیکن لوگ اپنی قدیمی رسموں کے پابند ہو کر خود بھی دوزخ کی آگ میں گرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اپنی رسمیں سکھا کر دوزخ میں لے جانا چاہتے ہیں :۔
Top