Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 123
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِیْ كُلِّ قَرْیَةٍ اَكٰبِرَ مُجْرِمِیْهَا لِیَمْكُرُوْا فِیْهَا١ؕ وَ مَا یَمْكُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِهِمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح جَعَلْنَا : ہم نے بنائے فِيْ : میں كُلِّ : ہر قَرْيَةٍ : بستی اَكٰبِرَ : بڑے مُجْرِمِيْهَا : اس کے مجرم لِيَمْكُرُوْا : تاکہ وہ حیلے کریں فِيْهَا : اس میں وَمَا : اور نہیں يَمْكُرُوْنَ : وہ حیلے کرتے اِلَّا : مگر بِاَنْفُسِهِمْ : اپنی جانوں پر وَمَا : اور نہیں يَشْعُرُوْنَ : وہ شعور رکھتے
اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں بڑے بڑے مجرم پیدا کیے کہ ان میں مکاّریاں کرتے رہیں۔ اور جو مکاّریاں یہ کرتے ہیں ان کا نقصان انہی کو ہے اور (اس سے) بیخبر ہیں۔
(123 ۔ 124) ۔ معتبر مفسرین سلف مثل مجاہد اور مقاتل نے ان آیتوں کی تفسیر میں لکھا ہے کہ وعید بن مغیرہ اور ابوجہل نے مکہ کے ناکوں اور راستوں پر کئی آدمی اس غرض سے بٹھا رکھے تھے کہ وہ مکہ کے لوگوں سے اور موسم حج میں جو باہر کے لوگ مکہ کو آتے تھے ان سے آنحضرت کی مذمت کریں اور کہیں کہ یہ شخص جادوگر ہے جھوٹا ہے نبی نہیں ہے اور اسی قدر شرارت پر ولید بن مغیرہ نے کفایت نہیں کی بلکہ ایک روز آنحضرت سے آن کر بڑی بحث کی اور کہا کہ اگر نبوت سچی چیز ہوتی تو مجھ کو ہونی چاہئے تھی کہ محمد ﷺ سے عمر میں بڑا ہوں اور مالدار بھی ہوں اور عرب میں میرا کہنا سننا بھی زیادہ ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرما کر دو مطلب بیان فرمائے ایک تو آنحضرت کی یہ تسلی اور تسکین فرمائی کہ ہر نبی کے ساتھ ہر بستی میں پہلے بھی اسی طرح شریر لوگ ہم نے پیدا کئے ہیں تاکہ ان کی شرارت پر کمزوری کے زمانہ تلک نبی وقت کو صبر کرنے سے اجر ملے اور آخر کو وہ شریر سرکش غارت ہوجاویں اور انکا غارت ہوجانا اور لوگوں کو عبرت کا سبب ہو اور لوگ دین الٰہی کی طرف رجوع ہوں دوسرے ولیدبن مغیرہ نے جو آنحضرت سے بحث کی تھی کہ بجائے محمد ﷺ کے نبوت اس کو ہونی چاہیے تھی اس کا جواب یہ دیا کہ جو شخص اللہ کی پیغمبری ادا کرنے کے لائق ہے وہ اللہ کو ہی خوب معلوم ہے۔ معتبر سند سے مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت عبداللہ بن معسود ؓ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عالم مثال میں سب خلقت کے دلوں پر نظر فرمائی آنحضرت کے دل کو سزاوار اس خدمت کا پاکر اس خدمت سے سرفراز فرمایا اور جن دلوں کو صحابہ ہونے کا سزاوار پایا ان کو صحابہ بنایا عبداللہ بن مسعود ؓ کی اس روایت کی سند کے ابوبکر بن عیاش اور عاصم بن بہدلہ دو راویوں میں اگرچہ بعضے علماء نے کلام کیا ہے لیکن امام احمد نے ان دونوں کو ثقہ کہا ہے حاصل کلام یہ ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے نبوت اور صحابیت کی قرار داد اللہ کے نزدیک ٹھہر چکی ہے اب ولید بن مغیرہ یا ابوجہل حسد کے طور پر کچھ جدید تمنا کریں تو کیا ہوسکتا ہے اور ان آیات مکیہ میں اخبار غیب کے طور پر جو کچھ فرمایا تھا تھوڑے عرصہ میں وہی ہوا کہ بدر کی لڑائی میں اکثر مکہ کے سرکش غارت ہوگئے اور انکے غارت ہونے سے بڑی عبرت مکہ میں پھیلی اور فتح مکہ کے بعد کوئی مخالف دین الٰہی مکہ میں باقی نہ رہا علمائے مفسرین نے یہ بھی ان آیتوں کی تفسیر میں لکھا ہے کہ پہلے نبی صاحب شریعت نوح ( علیہ السلام) سے لے کر آنحضرت تک انبیاء کے حال پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبوت سے پہلے قوم میں جو شخص سر برآوردہ تھا اس کو نبوت اللہ تعالیٰ نے نہیں دی اور ہر نبی کی امت کے لوگ ابتدا میں بلا ثروت لوگ قرار پائے تاکہ یہ دھوکہ لوگوں کو نہ رہے کہ یہ دین الٰہی نہیں ہے بلکہ ثروت دنیاوی کے سبب سے یہ دین پھیل گیا ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے انس ؓ بن مالک کی حدیث گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا بڑے بڑے مالدار اور صاحب ثروت دوزخیوں کو جب دوزخ میں ڈالا جاوے گا تو دوزخ کے پہلے ہی جھونکے کے بعد اللہ کے حکم سے اللہ کے فرشتے ان لوگوں سے پوچھیں گے کہ جس مالداری اور ثروت کے سبب سے تم لوگ دنیا میں عقبے سے غافل رہے اور انبیاء کی نصیحت کو تم نے نہ مانا آج اس عذاب کے آگے تمہیں دنیا کی وہ مالداری اور ثروت کچھ یاد ہے تفسیر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ولید بن مغیرہ ابوجہل وغیرہ اپنی دنیا کی جس مالداری اور ثروت کی وجہ سے اللہ کے رسول سے طرح طرح کی مخالفت دنیا میں کرتے رہے اس مخالفت کی سزا میں قیامت کے دن ایسے لوگوں پر جو عذاب ہوگا اس عذاب کے آگے اپنی وہ مالداری اور ثروت ان لوگوں کو بالکل یاد بھی نہ رہے گی اور ان لوگوں کو بڑا پچھتاوا ہوگا کہ ایسی بھولی ہوئی چیز کے غرور میں اس طرح کا سخت عذاب ہم نے اپنے سر کیوں لیا اس لیے فرمایا وما یمکرون الا بانفسھم کرتے ہیں اس کا وبال ایک دن ان ہی کی جان پر پڑنے والا ہے غرض صغار عند اللہ کی بدر کی ان لوگوں کی حالت اور عذاب شدید دیا بما کانوا یمکرون کی یہ حدیث ان لوگوں کی دنیوی اور آخری حال کی پوری تفسیر ہے :۔
Top