Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 165
وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَكُمْ خَلٰٓئِفَ الْاَرْضِ وَ رَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَاۤ اٰتٰىكُمْ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ١ۖ٘ وَ اِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْ : جس نے جَعَلَكُمْ : تمہیں بنایا خَلٰٓئِفَ : نائب الْاَرْضِ : زمین وَرَفَعَ : اور بلند کیے بَعْضَكُمْ : تم میں سے بعض فَوْقَ : پر۔ اوپر بَعْضٍ : بعض دَرَجٰتٍ : درجے لِّيَبْلُوَكُمْ : تاکہ تمہیں آزمائے فِيْ : میں مَآ اٰتٰىكُمْ : جو اس نے تمہیں دیا اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب سَرِيْعُ : جلد الْعِقَابِ : سزا دینے والا وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ لَغَفُوْرٌ : یقیناً بخشے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے۔ تاکہ جو کچھ اس نے تمہیں بخشا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔ بیشک تمہارا پروردگار جلد عذاب دینے والا ہے اور بیشک وہ بخشے والا مہربان (بھی) ہے۔
جس طرح ہر مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کی توقع رکھنی چاہئے اسی طرح اس کے عذاب اور غصہ سے بھی ہر وقت ڈرنا چاہئے اس واسطے ایمان امید اور زندگی کے بیچ میں قرار پایا ہے صحیح مسلم ترمذی مسند امام احمد بن حنبل میں ابوہریرہ ؓ اور صحابہ ؓ کی مرفوع اور موقوف حدیثوں کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے عذاب اور غصہ کا حال اگر لوگوں کو معلوم ہوجاوے تو جنت میں داخل ہونے سے ہر ایک کا دل چھوٹ جاوے اسی طرح اس کی رحمت کا حال معلوم ہوجاوے تو کوئی اپنے آپ کو دوزخی نہ خیال کرے صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ رحمت کے سو درجہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں ایک درجہ دنیا بھر میں ساری خلقت کو بٹا ہے اور ننانوے درجے اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ کی دوسری حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ایک نوشتہ عرش پر اپنے پاس لکھ کر رکھ لیا ہے کہ اللہ کی رحمت اللہ کے غضب اور غصہ پر غالب ہے۔ حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ پچھلی امتوں کے بعد اے امت محمدیہ اللہ تعالیٰ نے ان امتوں کے نائب اور قائم مقام کے طور پر تم کو پیدا کیا ہے اور انتظام دنیا چلنے کے لئے بعضوں کو تم میں مال دار کیا ہے اور بعضوں کو تنگ دست تاکہ تنگ دست لوگوں کے کام کاج سے اپنی ہر طرح کو ضرورتوں کو رفع کر کے اپنی گذران کریں اور امیر غریب کے پیدا کرنے میں آزمائش بھی ہے کہ مال دار لوگ کہاں تک اس مال ومتاع کے دینے والے کا شکر کرتے ہیں اور غریب لوگ اپنی غریبی پر کہاں تک صبر و قناعت سے کام لیتے ہیں پھر فرمایا کہ یہ دنیا اور دنیا کا انتظام سب چند روزہ ہے اس چند روزہ انتظام میں خواہ امیر خواہ غریب جو کوئی اتنی عقل مندی کرے گا کہ پچھلی امتوں کے عذاب الٰہی سے ہلاک ہوجانے کا حال پیش نظر رکھ کر جہاں تک ہو سکے کچھ عقبے کا سامان کر لیوے گا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت ایسی وافر ہے کہ وہ تھوڑے عمل کا بہت سا ثواب عنایت فرماویگا چناچہ فقط ایک کلمہ توحید کا ثواب کا حال اوپر گذر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہاں تک اس کو بڑھا دیا اور جو کوئی نادانی سے عمر بھر نافرمانی میں گرفتار رہے گا تو اللہ تعالیٰ کا عذاب بھی ایسا سخت ہے کہ جس کا کچھ ٹھکانا نہیں۔ معتبر سند سے شدادبن اوس ؓ کی حدیث ترمذی اور ابن ماجہ کے حوالہ سے گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا عقلمند وہ شخص ہے جو موت سے پہلے موت کے مابعد کا کچھ سامان کر لیوے اور نادان وہ شخص ہے جو عمر بھر نافرمانی میں لگار ہے اور پھر عقبے میں اللہ تعالیٰ سے بہبودی کی توقع رکھے اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے۔
Top