Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 68
وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖ١ؕ وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
وَاِذَا : اور جب رَاَيْتَ : تو دیکھے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو کہ يَخُوْضُوْنَ : جھگڑتے ہیں فِيْٓ : میں اٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں فَاَعْرِضْ : تو کنارا کرلے عَنْهُمْ : ان سے حَتّٰي : یہانتک کہ يَخُوْضُوْا : وہ مشغول ہو فِيْ : میں حَدِيْثٍ : کوئی بات غَيْرِهٖ : اس کے علاوہ وَاِمَّا : اور اگر يُنْسِيَنَّكَ : بھلا دے تجھے الشَّيْطٰنُ : شیطان فَلَا تَقْعُدْ : تو نہ بیٹھ بَعْدَ : بعد الذِّكْرٰي : یاد آنا مَعَ : ساتھ (پاس) الْقَوْمِ : قوم (لوگ) الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور جب ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کے بارے میں بےہودہ بکواس کر رہے ہیں تو ان سے الگ ہوجاؤ یہاں تک کہ اور باتوں میں مصروف ہوجائیں اور اگر (یہ بات) شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے پر ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو
(68 ۔ 69) ۔ بعضے مفسروں نے اس آیت کو سورة نساء سے منسوخ کہا ہے کیونکہ سورة نساء کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس آیت کا حوالہ دیا ہے اور فرمایا ہے وَقَدُ نَزَّلَ عکیْکمْ فِی الکِتَابِ (4۔ 14) اس سے معلوم ہوا کہ سورة نساء کی آیت پیچھے نازل ہوئی ہے اور جب آخر کی آیت میں یہ حکم ہے کہ قرآن سے ٹھٹھا کرنے والوں میں جو شخص بیٹھے گا وہ بھی ان میں سے ہوگا تو پھر یہ حکم کہ جو شخص نصیحت کی راہ سے ایسے لوگوں میں بیٹھے گا اس پر کچھ گناہ نہیں ہے منسوخ ٹھہرا لیکن جمہور مفسرین کے نزدیک یہ آیت منسوخ نہیں ہے نصیحت کی راہ سے ایسے لوگوں کا بیٹھنا دونوں آیتوں سے جائز ہے ورنہ دین کا بڑا جز جو نصیحت ہے جس پر صحیح حدیثوں میں آنحضرت نے بیعت لی ہے متروک ہوجاویگا ہاں خالی میل جول کے طور پر بیٹھنا حرام ہے غرض علم مفسرین کے قول پر دونوں آیتوں سے یہ مطلب نکلا کہ آجکل بعضے لوگ جو آیت قرآن اور احادیث نبوی کو پر واہ کی نظر سے نہیں دیکھتے ہیں ایسے لوگوں میں یا تو متقی شخص نہ بیٹھے یا بیٹھے تو ان لوگوں کو نصیحت کرتا رہے اگر بیٹھے گا اور نصیحت نہ کریگا تو ایسا شخص سخت گنہگار ہوگا۔ بعضے مسلمانوں نے آنحضرت ﷺ سے شکایت کی تھی کہ یہ مشرک لوگ تو ہر وقت قرآن کی مذمت میں لگے رہتے ہیں اس صورت میں اگر ہم حرم میں مثلا طواف کو جاویں اور وہاں مشرک لوگ بھی موجود ہوں اور ہم ان کے منہ سے قرآن کی مذمت کی کوئی بات سن لیویں تو اس گناہ سے ہم کیونکر بچ سکتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے وَمَا عَلَی الَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِھِمْ مِّنْ شَیْئٍ سے آخر آیت کا ٹکڑا نازل فرما کر ان مسلمانوں کو جتلا دیا کہ جب میل جول کے طور پر تم ان لوگوں میں نہیں بیٹھتے تو اس طرح کی اتفاقی ملاقات میں ان کی بداعمالی کا محاسبہ تم لوگوں سے نہ ہوگا۔ لیکن ایسی ملاقات کے وقت ان لوگوں کو کچھ مناسب نصیحت کردی جاوے تاکہ ہر وقت کی نصیحت سے شاید وہ لوگ بھی راہ راست پر آجاویں۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ خلاف شریعت کوئی بات دیکھ کر ہاتھ سے زبان سے جس طرح ممکن ہو اس کی اصلاح ایماندار آدمی کے ایمان کی علامت ہے پھر اگر یہ ظاقت کسی ایماندار شخص میں نہ ہو تو اس خلاف شریعت باب کو دل سے برا جاننا یہ ایمان کا ضعیف درجہ 1 ؎ ہے۔ 1 ؎ صحیح مسلم ج 1 ص 52 باب بیان کون النبی عن المنکرمن الایمان الخ بروایت ابی سعید الخدری ؓ مسند امام احمد ترمذی اور ابن ماجہ کے حوالہ سے حذیفہ بن الیمان ؓ کی حدیث بھی ایک جگہ گذر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ کہ آپس کی نصیحت کا طریقہ جب لوگوں سے اٹھ جائے گا تو ایسی بستی کے سب لوگوں پر کوئی عذاب آجاویگا اور پھر کسی نیک آدمی کی دعا عذاب کے ٹلنے کے باب میں قبول نہ ہوگی ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے 2 ؎ ان آیتوں میں آپس کی نصیحت کا جو ذکر ہے یہ حدیثیں گویا اس کی تفسیر ہیں :۔ 2 ؎ جامع ترمذی ج 2 ص 39 باب ماجاء فی الامر بالمعروفو النہی عن المنکر
Top