Ahsan-ut-Tafaseer - At-Taghaabun : 11
مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ یَهْدِ قَلْبَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
مَآ اَصَابَ : نہیں پہنچتی مِنْ مُّصِيْبَةٍ : کوئی مصیبت اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ : مگر اللہ کے اذن سے وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ : اور جو کوئی ایمان لاتا ہے بِاللّٰهِ : اللہ پر يَهْدِ قَلْبَهٗ : وہ رہنمائی کرتا ہے اس کے دل کی وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کو عَلِيْمٌ : جاننے والا ہے
کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی مگر خدا کے حکم سے۔ اور جو شخص خدا پر ایمان لاتا ہے وہ اسکے دل کو ہدایت دیتا ہے اور خدا ہر چیز سے باخبر ہے۔
11۔ 13۔ اوپر اللہ اور اللہ کے رسول اور قرآن شریف پر ایمان لانے کا حکم فرما کر ان آیتوں میں تقدیر الٰہی پر ایمان لانے کا ذکر فرمایا معتبر سند سے مسند امام احمد ترمذی 5 ؎ ابن ماجہ اور مستدرک حاکم میں حضرت علی ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ایمان دار بننے کے لئے چار باتوں پر ہر آدمی کو ایمان لانا ضرور ہے ایک تو یہ کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے دوسرے یہ کہ میں اللہ کا سچا رسول ہوں اور جو دین کے احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے میں لایا ہوں وہ سب برحق ہیں۔ تیسرے یہ کہ مرنے کے بعد قیامت کا آنا برحق ہے۔ چوتھے تقدیر الٰہی کا دل میں پورا اعتقاد رکھنا آیت اور حدیث سے یہ مطلب نکلا کہ مثلاً آدمی کو کوئی تکلیف دنیا میں پہنچے تو آدمی دل میں پورا اعتقاد رکھے کہ مجھ کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے موافق پہنچی ہے جو کم دنیا کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھا ہے اور یہی اعتقاد دنیا کے باقی امور میں رکھنا چاہئے۔ چناچہ صحیح مسلم 1 ؎ کی عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث اس باب میں اوپر گزر چکی ہے اس اعتقاد سے یہ فائدہ ہوگا کہ آدمی کے دل میں صبر کی ہمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہوجائے گی جس سے دنیا میں تکلیف کی برداشت آسان ہوجائے گی اور صبر کا اجر ملے گا یہ مطلب ومن یومن باللہ یھد قلبہ کا ہے مشرکین مکہ یہ کہتے تھے کہ اگر یہ اہل اسلام حق پر ہوتے تو ان کو یہ دنیا کی طرح طرح کی مصیبتیں نہ پہنچتیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرمایا کہ جو لوگ حق پر ہیں ان کو دنیا کی مصیبتیں تقدیر الٰہی کے موافق اس مصلحت سے پہنچائی جاتی ہیں کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی توفیق کی مدد سے ان مصیبتوں پر صبر کریں جس کے اجر میں ان کے ثواب کا درجہ عقبیٰ میں بڑھے۔ ابوہریرہ 2 ؎ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بعض ایمان دار لوگوں کو اللہ تعالیٰ عقبیٰ میں ایسا درجہ دینا چاہتا ہے جو ان کے عملوں سے بڑھ کر ہے اس لئے ان کو دنیا میں کچھ مصیبتوں میں مبتلا فرماتا ہے اور پھر ان مصیبتوں پر صبر کی توفیق عنایت فرماتا ہے تاکہ اس صبر کے اجر میں وہ لوگ اس بڑے درجہ تک پہنچ جائیں۔ اس باب میں اور بھی حدیثیں ہیں یہ سب حدیثیں ان آیتوں کی گویا تفسیر ہیں۔ واللہ بکل شیء علیم، کا یہ مطلب ہے کہ کوئی چیز اللہ کے علم سے باہر نہیں۔ اس سے مصیبت کے وقت صبر کرنے والوں کا حال اللہ کو خوب معلوم ہے اسی کے موافق وہ ان کو عقبیٰ میں اجر عنایت فرمائے گا۔ طبرانی 3 ؎ کبیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب حشر کے دن مصیبت کے وقت صبر کرنے والوں کو بےحساب اجر ملے گا تو جو لوگ دنیا میں عافیت سے رہے ہیں وہ یہ آرزو کریں گے کہ دنیا میں کوئی قینچی سے ان کی بوٹاں کاٹتا اور وہ اس تکلیف پر صبر کرتے تو اچھا ہوتا کہ آج اس صبر کا بڑا اجر ملتا اس حدیث کی سند میں ایک راوی مجاعہ بن الزبیر ہے۔ اگرچہ بعض علما نے اس کی ثقاہت میں کلام کیا ہے لیکن امام احمد نے اس کو معتبر قرار دیا ہے 1 ؎ صبر کے اجر میں اور بھی حدیثیں ہیں جن سے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی اس روایت کو تقویت ہوجاتی ہے مصیبت کے وقت بشریت کے سبب سے آدمی ذرا گھبرا جاتا ہے اس لئے فرمایا کہ ایسے وقت میں اللہ اور اللہ کے رسول کی فرماں برداری کا پورا خیال رکھ کر کوئی بات خلاف شریعت نہ کی جائے اور دنیا عالم اسباب ہے اس میں تکلیف کا اگر سبب ہو تو اس سبب میں کوئی مستقل تاثیر نہ خیال کی جائے بلکہ ایسے وقت میں پورا بھروسہ اللہ پر رکھنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات میں وحدہ لاشریک ہے کسی سبب کو اس کی قدرت میں کوئی مستقل دخل نہیں ہے بیچ میں یہ بھی فرمایا کہ اللہ کے رسول کے ذمے احکام الٰہی کا بیان کردینا ہے ان احکام کو جو مانے گا اسی کا بھلا ہے۔ (5 ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی الایمان بالقدر خیرہ وشرہ ص 46 ج 2۔ ) (1 ؎ صحیح مسلم باب حجاج ادم و موسیٰ علیھما السلام ص 335 ج 2۔ ) (2 ؎ الترغیب والترہیب الترغیب فی الصبر الخ ص 527 ج 4۔ ) (3 ؎ الترغیب والترھیب الترغیب فی الصبر الخ ص 525 ج 4۔ ) (1 ؎ الترغیب و الترہیب الترغیب نے الصبر 525 ج کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیں۔ )
Top