Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Qalam : 17
اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ١ۚ اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِیْنَۙ
اِنَّا : بیشک ہم نے بَلَوْنٰهُمْ : آزمائش میں ڈالا ہم نے ان کو كَمَا بَلَوْنَآ : جیسا کہ آزمایا ہم نے اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ : باغ والوں کو اِذْ اَقْسَمُوْا : جب انہوں نے قسم کھائی لَيَصْرِمُنَّهَا : البتہ ضرور کاٹ لیں گے اس کو مُصْبِحِيْنَ : صبح سویرے
ہم نے ان لوگوں کی اس طرح آزمائش کی ہم جس طرح باغ والوں کی آزمائش کی تھی جب انہوں نے قمسیں کھا کھا کر کہا کہ صبح ہوتے ہوتے ہم اس کا میوہ توڑ لیں گے
17۔ 33۔ اہل مکہ جب اپنے مال و متاع پر بہت اترائے اور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی اور اللہ کے رسول سے طرح طرح کی سرکشی انہوں نے شروع کی تو آنحضرت ﷺ نے ان کے حق میں قحط کی بددعا کی جس کا ذکر حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی روایت سے صحیح بخاری 1 ؎ و مسلم میں ہے اللہ کے رسول کی بد دعا سے بڑا سخت قحط پڑا یہاں تک کہ اہل مکہ مردار چیزیں کھا کر زندگی بسر کرنے لگے۔ آخر آنحضرت ﷺ سے رفع قحط کی دعا کرنے کی التجا کی اور آپ ﷺ کی دعا سے وہ قحط رفع ہوا اس لئے اوپر کی آیتوں میں ولید بن مغیرہ کا خاص طور پر ذکر فرما کر سب قریش کو قحط کا قصہ یاد دلایا اور فرمایا کہ ان لوگوں کی نافرمانی کے سبب سے ان پر قحط کی آفت اسی طرح آئی تھی جیسے باغ والوں پر ان کے باغ کے اجڑ جانے کے وقت آئی تھی۔ ان باغ والوں کا قصہ مکہ اور نواح مکہ میں بہت مشہور تھا اس لئے اس کا حوالہ دیا گیا۔ تفسیرابن جریر 1 ؎ وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت سے حاصل اس قصہ کا یہ ہے کہ یمن کے ملک میں ایک شخص کا ایک باغ تھا وہ شخص نیک نیت تھا اللہ کی نعمت کی شکر گزاری میں فضل کے وقت کچھ میوہ اللہ کے نام پر دیا کرتا تھا اس شخص کی وفات کے بعد اس کے لڑکوں کی نیت بدل گئی اور انہوں نے یہ چاہا کہ فقیروں کے آنے سے پہلے اندھیرے منہ باغ جا کر سب میوہ پیڑوں سے توڑ لائیں۔ باغ میں پہنچنے سے پہلے اپنی ناشکری کا انہوں نے یہ پھل پایا کہ وہاں رات کو اللہ کے حکم سے آگ لگ گئی اور سارا باغ جل کر خاک سیاہ ہوگیا۔ جب یہ لوگ باغ پہنچے تو اس کی حالت دیکھ کر ان لوگوں کو خیال ہوا کہ شاید اندھیرے میں راستہ بھول کر ہم کہیں اور آگئے۔ پھر جب جگہ پہچان گئے تو اپنی ناشکری کی نیت پر بڑا افسوس کیا آخر آیت میں قریش کو ہوشیار کیا کہ دیکھو خدا کی نافرمانی اور اس کی نعمتوں کی ناشکری سے دنیا میں بھی خدا کی آفتیں یوں آیا کرتی ہیں۔ جس طرح تم پر قحط کی اور باغ والوں پر باغ کے جل جانے کی آفت آئی پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ چند روزہ دنیا ہی کیا اور اس کی چلتی پھرتی آفت ہی کیا آخرت کی آفت بڑی آفت ہے جس کی مدت کا کچھ ٹھکانا نہیں صوم کے معنی میوہ توڑنے کے ہیں۔ لایستثنون کے معنی یہ کہ انہوں نے اپنے ارادہ پر انشاء اللہ تعالیٰ نہیں کہا صریم کے معنی کے معنی کٹی ہوئی کھیتی بھوسا۔ حرد کے معنی کوشش ‘ اوسطھم کے معنی ان میں کا صاحب عقل۔ (1 ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة الدخان ص 714 ج 2۔ ) (1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 406 ج 4۔ )
Top