بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Qalam : 1
نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَۙ
نٓ : ن وَالْقَلَمِ : قسم ہے قلم کی وَمَا يَسْطُرُوْنَ : اور قسم ہے اس کی جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں
ن قلم کی اور جو (اہل قلم) لکھتے ہیں اس کی قسم
1۔ 7۔ یہ سورة مکی ہے کیونکہ اس کی شروع کی آیتیں مکہ میں نازل ہوئی ہیں اور پھر مابعد کی کچھ آیتیں بعض مفسروں کے قول کے موافق مدنی ہیں لیکن جس سورة کا شروع کا حصہ مکی ہو امام المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے قول کے موافق وہ سورة مکی کہلاتی ہے۔ اسی واسطے حافظ ابن 1 ؎ کثیر نے اس سورة کو مکی قرار دیا ہے حروف مقطعات کی بحث سورة بقر میں گزر چکی ہے قلم اور قلم سے جو کچھ لکھا جائے اللہ تعالیٰ نے اس کی قسم کھا کر آگے کا مطلب بیان فرمایا ہے اس قلم میں وہ قلم بھی داخل ہے جس سے لوح محفوظ پر دنیا کی سب کائنات لکھی گئی ہے قلم کی کتابت میں لوح محفوظ کا نوشتہ بھی داخل ہے اللہ تعالیٰ نے عرش سے پہلے قلم کو پیدا کیا یا بعد۔ اس میں علماء کے دو قول ہیں لیکن اکثر علما کا قول یہی ہے کہ عرش کی پیدائش قلم کی پیدائش سے مقدم ہے حدیث اول ماخلق اللہ العقل جو مشہور ہے اس کی سند میں تردد ہے۔ قلم اور اس کی کتابت اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے دین و دنیا کا انتظام اسی قلم و کتابت کے ذریعہ سے آج تک چلا اور آئندہ چلے گا کیونکہ دنی کی روایتیں نیا کی ہر طرح کی باتیں اور کیفیتیں پچھلوں سے ہم تک آئیں اور ہم سے آئندہ کی نسلوں تک جائیں گی اسی مطلب کے ادا کرنے کے لئے قتادہ اور سلف کا قول ہے کہ اگر قلم کا وجود دنیا میں نہ ہوتا تو نہ دین قائم رہ سکتا تھا نہ دنیا کی زندگی چل سکتی تھی غرض اتنی بڑی چیز کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے اللہ کے رسول ﷺ یہ مکہ کے مشرک لوگ جو تم کو دیوانہ کہتے ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ شرک کے اندھیرے نے ان کو اندھا کردیا ہے کہ تم تو اللہ کے حکم کے موافق ان کو نیک راستہ بتاتے ہو اور وہ تم کو دیوانہ کہتے ہیں خیر اللہ کے فضل سے تم میں کوئی بات دیوانگی کی نہیں ہے۔ یہ نادان لوگ نادانی سے کوئی گستاخی کی بات کہیں تو اس کو سن کر صبر کرو کہ یہ تمہارے حسن اخلاق کا شیوہ ہے اور صبر و استقلال سے اللہ کے حکم کے موافق اپنا کام کئے جائو۔ اللہ کی بارگاہ سے ان سب باتوں کا اجر تمہیں ملنے والا ہے جس کا اثر ہمیشہ رہے گا پھر فرمایا بہت جلد ان لوگوں کی آنکھوں کے سامنے آجائے گا کہ یہ خود دیوانے تھے جو اللہ کے رسول کو دیوانہ بتاتے تھے اور یہ بھی فرمایا کہ اللہ کے علم ازلی میں یہ بات قرار پا چکی ہے کہ قرآن کی نصیحت کے اثر سے کتنے آدمی ان کے راہ راست پر آنے والے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان گستاخیوں کی سزا میں ڈھیل ڈھال کر رکھی ہے اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے اس سورة کے نازل ہونے کے وقت سے فتح مکہ تک اہل مکہ میں سے جو لوگ بہکے رہے تھے وہ ذلت سے مارے گئے اور مرنے کے بعد انہوں نے دیکھ لیا کہ وہ خود سو دیوانوں کے دیوانے تھے جو اللہ کے رسول کو دیوانہ بتاتے تھے اور جو راہ راست پر آئے اور وہ ایسے آئے کہ اب ان کا شمار دین کے پیشواؤں میں ہے جس پیشوائی کا اجر قیامت تک ان کے اعمال ناموں میں لکھا جاتا ہے کیونکہ راہ راست پر آنے کے بعد اللہ کے رسول سے علم دین سیکھا جس کی روایت کا سلسلہ آج تک جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا یہ ان پیشوایان دین کا ایک بڑا صدقہ جاریہ ہے جس کا اجر ان کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد بھی قیامت تک منقطع نہ ہوگا۔ چناچہ صحیح مسلم 2 ؎ وغیرہ میں ابوہریرہ ؓ کی روایت سے جو صدقات جاریہ کی حدیث ہے اس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا۔ آنحضرت ﷺ کو حسن اخلاق کی یہاں تک پابندی تھی کہ آپ حسن اخلاق پر قائم رہنے کی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگا کرتے تھے۔ چناچہ مسند 3 ؎ امام احمد وغیرہ میں معتبر سند سے حضرت عائشہ ؓ کی روایت میں آپ کی اس دعا کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا کے موافق آپ کو وہ حسن اخلاق کی دولت عطا فرمائی تھی جس کی سینکڑوں روایتیں حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔ (1 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 250 ج 6۔ ) (2 ؎ صحیح مسلمب اب وصول ثواب الصدقات الی المیت ص 41 ج 2۔ ) (3 ؎ مشکوٰۃ شریف باب فی الرفق ولحیاء فصل ثالث ص 432۔ )
Top