Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Qalam : 48
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَ لَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ١ۘ اِذْ نَادٰى وَ هُوَ مَكْظُوْمٌؕ
فَاصْبِرْ : پس صبر کرو لِحُكْمِ رَبِّكَ : اپنے رب کے حکم کے لیے وَلَا تَكُنْ : اور نہ تم ہو كَصَاحِبِ الْحُوْتِ : مانند مچھلی والے کے اِذْ نَادٰى : جب اس نے پکارا وَهُوَ مَكْظُوْمٌ : اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا
تو اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کئے رہو اور مچھلی (کا لقمہ ہونے) والے (یونس) کی طرح نہ ہونا کہ انہوں نے خدا کو پکارا اور وہ غم و غصے میں بھرے ہوئے تھے
48۔ 52۔ اوپر ذکر تھا کہ قرآن کی آیتوں کو جو لوگ جھٹلاتے ہیں انہیں اللہ نے کچھ دنوں ڈھیل دے رکھی ہے ان آیتوں میں فرمایا اے رسول اللہ کے اس ڈھیل کی مدت میں تم کو صبر اور اللہ کے حکم کا انتظار ضرور ہے ایسا نہ ہو کہ بلا انتظار اللہ کے حکم کے یونس (علیہ السلام) کا سا تم کوئی جلدی کا کام کر بیٹھو۔ یونس (علیہ السلام) کا قصہ سورة یونس انبیاء اور الصافات میں گزر چکا ہے انہوں نے بلا انتظار اللہ کے حکم کے جلدی کا کام کیا وہ یہ تھا کہ جب ان کی قوم یونس پر عذاب کے آنے کا حال معلوم ہوگیا تو وہ بستی کو چھوڑ کر جنگل میں چلے گئے اور ادھر قوم یونس کے رونے گڑگڑانے اور راہ راست پر آجانے سے وہ عذاب ٹل گیا غرض وقت مقرہ گزر جانے پر عذاب کے نازل ہونے کی خبر جو یونس (علیہ السلام) کو کچھ نہ لگی تو بلا انتظار اللہ کے حکم کے یہ وہاں سے چل دیئے یہی انہوں نے گویا خود مختاری اور جلدی کی۔ اب آگے باقی کا قصہ ہے کہ یہ وہاں سے ایک دریا پر جا کر کشتی میں بیٹھے وہ کشتی وہیں تھم گئی۔ کشتی والوں نے قرعہ ڈالا کہ کس کے روکنے کے لئے یہ کشتی اڑی ہے قرعہ میں ان کا نام نکلا۔ انہوں نے اپنے آپ کو دریا میں ڈال دیا۔ اور ایک مچھلی نے ان کو نگل لیا اور انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں یہ دعامانگی لا الہ الا انت سبحنک ان کنت من الظلمین اور اللہ کے حکم سے اس مچھلی نے ایک چٹیل میدان میں ان کو اگل دیا اللہ تعالیٰ نے وہاں ایک کدو کی بیل پیدا کی اور اس میں ان کو رکھا تاکہ مچھلی کے پیٹ کی گرمی سے ان کے جسم کی کھال اڑ کر جگہ جگہ جو زخم پر گئے تھے سخت زمین پر لیٹنے سے وہ زخم اور زیادہ نہ چھل جائیں۔ اسی کو فرمایا کہ اس چٹیل میدان میں اللہ ان کو نہ سنبھالتا تو وہاں زخموں کا جلدی اچھا ہونا ممکن نہ تھا اور پھر جب یہ تندرست ہوگئے تو اسی قوم کی ہدایت کے لئے ان کو بھیجا۔ بعض مفسروں نے فاجتباہ ربہ فجعلہ من الصالحین کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یونس (علیہ السلام) کا سارا قصہ ان کی نبوت سے پہلے کا تھا پھر قصہ کے بعد اس آیت کے مضمون کے موافق اللہ تعالیٰ نے ان کو پیغمبر کیا۔ لیکن امام المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ وہ پہلے ہی سے پیغمبر تھے۔ اجتبا کے یہ معنی ہیں کہ قصے کہ دنوں میں وحی جو منقطع ہوگئی تھی وہ پھر جاری ہوگئی یہ تفسیر والصافات کی آیت وان یونس لمن المرسلین اذا بق الی الفلک المشحون کے موافق ہے کیونکہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یونس (علیہ السلام) جب کشتی میں بیٹھ گئے تو اس وقت وہ پیغمبر تھے جب آنحضرت ﷺ مکہ کے لوگوں کو قرآن کی آیتیں سناتے اور بت پرستی کی مذمت کرتے تو یہ لوگ غصہ ہو کر آپ ﷺ کو دیوانہ کہتے اور آپ کی طرف قہر کی نگاہ سے دیکھتے کہ گویا نگاہ کے تیرکلیجہ کے پار کرکے آپ ﷺ کا کام تمام کردیں یا بس چلے تو حملہ کر بیٹھیں اور قرآن کی آیتوں کا پڑھنا بند کردیں چناچہ سورة حج میں ہے یکادون یسطون باذین یتلون علیھم ایتنا بعض مفسروں نے یہ لکھا ہے کہ بعض قبیلے ایسے تھے کہ جن کی نظر بہت جلد لگ جاتی تھی اس لئے وہ آنحضرت ﷺ کو بری نگاہ سے دیکھتے تھے کہ آپ ﷺ کو نظر لگ جائے اگرچہ نظر کا حق ہونا صحیح حدیثوں سے ثابت 1 ؎ ہوتا ہے لیکن یہاں اس تفسیر کا موقع نہیں ہے کیونکہ کسی چیز کو ٹوکنے کے طور پر اچھا کہہ کر آدمی دیکھے تو نظر لگا کرتی ہے غصہ کی نگاہ سے نظر نہیں لگتی اس لئے آیت کی تفسیر جو آیت سے کی گئی ہے وہی اولے ہے پھر فرمایا کہ قرآن کی آیتوں میں تو وہ نصیحتیں ہیں کہ جن کے اثر سے ایک وہ نہیں بلکہ ایک عالم راہ راست پر آنے والا ہے ایسی نصیحت کے سنانے والے کو جو دیوانہ بتاتا ہے وہ خود دیوانہ ہے۔ (1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 409 ج 4۔ )
Top