Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 12
قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ١ؕ قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُ١ۚ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ
قَالَ : اس نے فرمایا مَا مَنَعَكَ : کس نے تجھے منع کیا اَلَّا تَسْجُدَ : کہ تو سجدہ نہ کرے اِذْ اَمَرْتُكَ : جب میں نے تجھے حکم دیا قَالَ : وہ بولا اَنَا : میں خَيْرٌ : بہتر مِّنْهُ : اس سے خَلَقْتَنِيْ : تونے مجھے پیدا کیا مِنْ : سے نَّارٍ : آگ وَّخَلَقْتَهٗ : اور تونے اسے پیدا کیا مِنْ : سے طِيْنٍ : مٹی
(خدا نے) فرمایا جب میں نے تجھ کو حکم دیا تو کس چیز نے تجھے سجدہ کرنے سے باز رکھا ؟ اس نے کہا کہ میں اس سے افضل ہوں۔ مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے بنایا ہے۔
حسن بصری اور ابن سیرین اور اکثر بزرگان دین نے کہا ہے کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) کو قبلہ ٹھہرا کر خدا تعالیٰ کا سجدہ کرنے کا حکم فرشتوں کے لئے اور ابلیس کے لئے ایک قطعی حکم تھا اور یہ ایسا حکم تھا کہ جس طرح کعبہ کو قبلہ ٹھہرا کر سجدہ کرنے نماز میں حکم ہے شیطان نے اس قطعی حکم کے مقابلہ میں جو قیاس کیا یہ پہلا قیاس ہے جو نص کے مقابلہ میں کیا گیا ہے اب بھی نص کے مقابلہ میں جو شخص اس طرح کی عقلی قیاس کرلے اس میں خصلت شیطانی کا اثر ہے اور ایسے شخص کا وہ انجام ہوگا جو شیطان کا انجام ہے ابن سیرین کہا کرتے تھے بتوں کی آگ کی سورج چاند کی غرض سوا اللہ تعالیٰ کے جس چیز کی پوجا زمین پر پھیلی ہے وہ سب قیاس عقلی سے پھیلی ہے۔ یہ محمد بن سرین حسن بصر کے طبقہ کے تابعی ثقہ ہیں حدیث کی صحیح کتابوں میں ان سے روایتیں ہیں قیاس عقلی سے مقصود وہ قیاس ہے جس کی بنا کسی شرعی حکم پر نہ ہو جس قیاس کی بنیاد کسی شرعی حکم پر ہو وہ قیاس فقہی کہلاتا ہے جب کسی مسئلہ کا صاف حکم قرآن اور حدیث میں نہ پایا جاوے تو قرآن اور حدیث میں موجود احکام کو نظر ٹھہرا کر یہ قیاس فقہی جائز ہے سلف میں اس کا وجود پایا جاتا ہے تفصیلی ذکر اس قیاس کا اصول فقہ کی کتابوں میں ہے۔ محمد بن سیرین نے یہ بات نہایت سچی کہی کہ سوائے اللہ کے جو چیزیں زمین پر پوجی جاتی ہیں وہ قیاس عقلی کے سبب سے پوجی جاتی ہیں۔ کیونکہ مثلا بت پر ستی کی بنیاد اس عقلی قیاس پر ہے کہ یہ مورتیں اچھے لوگوں کی ہیں ان مورتوں کی تعظیم اور پوجا کی جاوے گی تو وہ اچھے لوگ اپنے مورتوں کے پوجنے والوں کے برے وقت پر کام آویں گے اسی طرح اور چیزوں کا حال ہے ستارہ پرست کہتے ہیں کہ جس طرح انسان کی روح ہے اسی طرح ستاروں کی بھی اروحیں ہیں جن کو دنیا کے انتظام میں بڑا محل ہے ان کی پوجا سے انسان کا بھلا ہوسکتا ہے۔ آتش پرست سورج کو دنیا کا بادشاہ کہتے ہیں اور سورج کی مناسبت کے سبب سے آگ کی پوجا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آگ ایسی چیز ہے جس سے دنیا کی ضرورتیں متعلق ہیں صحیح بخاری ومسلم میں حضرت علی ؓ کی روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو مخلوق اللہ کے علم ازلی میں نیک قرار پاچکی ہے اس کے دنیا میں نیک کام آسمان ہوجاتے ہیں اور جو مخلوق علم الٰہی میں بدقرار پاچکی ہے وہ نیک کاموں سے دور اور برے کاموں میں ہیمشہ گرفتار رہتی ہے یہ حدیث حضرت آدم اور شیطان کے قصے کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آدم (علیہ السلام) علم الٰہی میں نیک قرار پائے تھے اس لئے گیہوں کھانے کے قصور کے بعد ان کو توبہ آسان ہوگئی اور شیطان علم الٰہی میں بدقرار پاچکا تھا اس لئے سجدہ نہ کرنے کے قصور سے اس کو توبہ مسمان نہیں ہوئی بلکہ اس نے اپنے قیاس عقلی سے اس قصور کو قصور نہیں جانا :۔
Top