Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 130
وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑا اٰلَ فِرْعَوْنَ : فرعون والے بِالسِّنِيْنَ : قحطوں میں وَنَقْصٍ : اور نقصان مِّنَ : سے (میں) الثَّمَرٰتِ : پھل (جمع) لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَذَّكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور ہم نے فرعونیوں کو قحطوں اور میووں کے نقصان میں پکڑا تاکہ نصیحت حاصل کریں۔
(130 ۔ 131) ۔ اللہ پاک نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کا امتحان لیا کہ قحط ڈال دیا درختوں میں پھل لگنے موقوف ہوگئے کھجور کے درختوں میں ایک ایک کھجور لگتی تھی چشمہ نیل بالکل خشک ہوگیا مینہ برسنا بند ہوگیا یہ جانچ تھی کہ شاید مصیبت کے وقت میں ان کے دل نرم ہوجاویں اور خدا سے رجوع ہوں اور رسول کی باتوں کو مانیں مگر کچھکار آمد نہ ہوا اپنے کفر پر جمے رہے پھر اللہ پاک نے فرمایا جب یہ تکلیف دور ہوگئی اور آرام کی گھڑی آگئی تو کہنے لگے ہم اسی کے مستحق تھے اور جب کوئی برائی اور تکلیف پہنچتی تو موسیٰ (علیہ السلام) پر یہ بات دھرتے اور کہتے کہ ان کے باعث سے یہ سال نحس ہوا اور یہ نہ سمجھتے تھے کہ خوشی کا وقت خدا کے فضل سے نصیب ہوا اور رنج کی گھڑی اس کی آزمائش ہے اس لئے فرمایا کہ خوشی اور تکلیف سب خدا ہی کی طرف سے ہے اس میں کسی کو نحوست کو کچھ دخل نہیں ہے یہ سب خدا کی طرف سے ہے لیکن اکثر لوگوں کو اس کی سمجھ نہیں صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے بدفالی کی ممانعت فرمائی ہے صحیح سند سے ترمذی ابوداؤد وغیرہ میں عبداللہ بن مسعود ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے بدفالی کو شرک فرمایا ہے بدفالی میں تقدیر الٰہی کا ان کا اور بدفالی کی چیزوں میں مستقل طور پر ضرر رسانی کا اعتقاد پایا جاتا ہے اسی کو اللہ کے رسول نے شرک فرمایا ہے کیونکہ سوا اللہ تعالیٰ کی ذات کے اور کسی چیز میں مستقل طور پر ضرر رسانی کی قدرت نہیں ہے ترمذی اور مسند امام احمد کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا تمام مخلوقات کسی شخص کے ضرر پہنچانے کا ارادہ کرے تو بھی بغیر حکم اللہ تعالیٰ کی کوئی اس شخص کو ضرر نہیں پہنچا سکتا 1 ؎ 1 ؎ مشکوٰۃ ص 453 باب التوکل والصبر۔
Top