Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 157
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ١٘ یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْ١ؕ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤ١ۙ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠   ۧ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَتَّبِعُوْنَ : پیروی کرتے ہیں الرَّسُوْلَ : رسول النَّبِيَّ : نبی الْاُمِّيَّ : امی الَّذِيْ : وہ جو۔ جس يَجِدُوْنَهٗ : اسے پاتے ہیں مَكْتُوْبًا : لکھا ہوا عِنْدَهُمْ : اپنے پاس فِي : میں التَّوْرٰىةِ : توریت وَالْاِنْجِيْلِ : اور انجیل يَاْمُرُهُمْ : وہ حکم دیتا ہے بِالْمَعْرُوْفِ : بھلائی وَيَنْهٰىهُمْ : اور روکتا ہے انہیں عَنِ : سے الْمُنْكَرِ : برائی وَيُحِلُّ : اور حلال کرتا ہے لَهُمُ : ان کے لیے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَيُحَرِّمُ : اور حرام کرتا ہے عَلَيْهِمُ : ان پر الْخَبٰٓئِثَ : ناپاک چیزیں وَيَضَعُ : اور اتارتا ہے عَنْهُمْ : ان کے بوجھ اِصْرَهُمْ : ان کے بوجھ وَالْاَغْلٰلَ : اور طوق الَّتِيْ : جو كَانَتْ : تھے عَلَيْهِمْ : ان پر فَالَّذِيْنَ : پس جو لوگ اٰمَنُوْا بِهٖ : ایمان لائے اس پر وَعَزَّرُوْهُ : اور اس کی رفاقت (حمایت کی) وَنَصَرُوْهُ : اور اس کی مدد کی وَاتَّبَعُوا : اور پیروی کی النُّوْرَ : نور الَّذِيْٓ : جو اُنْزِلَ : اتارا گیا مَعَهٗٓ : اس کے ساتھ اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ هُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
وہ جو (محمد رسول اللہ ﷺ کی جو نبی امی ہیں پیروی کرتے ہیں۔ جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ انہیں نیک کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں اور پاک چیزوں کو ان کے لئے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام تھیراتے ہیں اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان (کے سے) پر (اور گلے میں) تھے اتار تے ہیں۔ تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت کی اور انہیں مدد دی اور جو نور ان کے ساتھ نازل ہوا ہے اس کی پیروی کی وہی مراد پانے والے ہیں۔
اوپر کی آیت میں جو اللہ پاک نے یہ فرمایا تھا کہ میری رحمت انہی لوگوں کے لئے مخصوص ہے جو خدا سے ڈرتے ہیں زکوٰۃ دیتے ہیں اور میری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں انہی کا یہ ذکر اس آیت میں فرمایا کہ وہ لوگ وہ ہیں جو رسول امی کی پیروی کرتے ہیں امام رازی نے کہا ہے الذین یتبعون سے مراد بنی اسرائیل ہیں مگر جمہور مفسرین کا قول یہ ہے کہ اس آیت میں ساری امت آنحضرت کی مراد ہے خواہ بنی اسرائیل میں سے ہوں خواہ کسی اور فرقے کے ہوں جو حضرت پر ایمان لایا ہے آیت اسی کی شان میں ہے پھر فرمایا کہ اگلی امتیں ان رسول کو اپنی کتاب توریت انجیل میں نبی امی لکھا ہوا پاتے ہیں اس لئے کہ آپ جس طرح ماں کے شکم سے پیدا ہوئے اسی طرح تاحین حیات رہے نہ کسی سے لکھنا سیکھا نہ پڑھنا اس واسطے آپ کا لقب امی ہے کہ آپ ام القریٰ مکہ میں پیدا ہوئے یہی دو معنے امی کی مفسروں نے بیان کئے ہیں پہلے رسولوں نے آپ کی صفت اپنی کتابوں میں دیکھ کر اپنی امت کو اس کی بشارت دے دی تھی کہ یہ وصف امی کا حضرت خاتم الانبیاء اور سید المرسلین کا لقب ہے حضرت انس ؓ کی ایک حدیث صحیح بخاری میں ہے میں ابوصخر عقیلی کہتے ہیں کہ مجھ سے ایک گھوار نے ذکر کیا کہ وہ مدینہ میں ایک روز حلو ابیچنے کو گیا حضرت ﷺ کے دیکھنے کا دل میں خیال ہوا کہ چلو ان کو بھی دیکھوں اور ان کی باتیں سنو راستے میں آپ حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کے ساتھ جا رہے تھے وہ گنوار بھی ان کے پیچھے ہو لیا ایک یہودی کا جوان اور خوبصورت لڑکا قریب المرگ تھا وہ یہودی توریت کھولے ہوئے پڑھ رہا تھا حضرت ﷺ نے اس سے کہا کہ تجھ کو توریت نازل کرنے والے کی قسم سچ بتلا اس میں میری صفت اور میرے رسول بنائے جانے کا ذکر ہے اس نے سر ہلا کر کہا کہ نہیں اس کے بیٹے نے جو جان کنی کی حالت میں تھا کہ کہ مجھ کو اسی ذات کی قسم ہے جس نے توریت نازل کی ہے میں آپ کی صفت اور آپکا دنیا میں آنا توریت میں لکھا ہوا پاتا ہوں اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ سوا اللہ کے کوئی معبود نہیں اور آپ اس کے رسول ہیں حضرت نے فرمایا کہ اس یہودی کو اس کے بیٹے کے پاس سے اٹھا دو اور آپ خود اس مرنے والے کے متولی ہوئے اور کفن و نماز اسکی آپ نے ادا کی حاکم کی مستدرک میں ابوامامہ باملی ؓ کی روایت ہے جس میں ہشام بن خاص اموی کہتے ہیں کہ میں اور ایک شخص ہرقل بادشاہ روم کی طرف بھیجے گئے تاکہ اس کو دین اسلام کا پیغام پہنچائیں جب دمشق میں پہنچے جبلہ بن ابہم غسالی جو وہاں کا حاکم تھا اس کے یہاں گئے وہ تخت پر بیٹھا تھا اس نے قاصد کو بھیجا کہ ان سے جا کر بات کرو ہم نے کہا کہ ہم قاصد سے بات نہیں کریں گے ہم تو بادشاہ کے پاس بھیجے گئے ہیں اگر وہ ہم کو اپنے پاس بلائے گا تو اس سے بات کریں گے قاصد نے یہی جاکر کہہ دیا اس نے ہم کو بلا کر کہا کہو کیا کہتے ہو ہشام بن عاص ؓ نے گفتگو کی اور دعوت اسلام پہنچائی وہ سر سے پاؤں تک کالے کپڑے پہنے ہوئے تھا ہشام نے کہا کہ تمہارے یہ کپڑے کیسے ہیں اس نے کہا میں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک تم کو ملک شام سے نہ نکال دوں گا یہ کپڑے نہ اتاروں گا ہشام نے کہا واللہ ہم تجھ سے تیری اس محفل کو چھین لیں گے بلکہ تیرے بادشاہ کا ملک بھی لے لیویں گے ہم کو یہ خبر ہمارے رسول ﷺ نے دی ہے اس نے جواب دیا کہ وہ لوگ اور ہیں تم نہیں ہو وہ لوگ دن کو روزے رکھتے ہیں اور راتوں کو نماز پڑھتے ہیں تم کہو تمہارا روزہ کیسا ہے میں نے بتلا دیا اس کا منہ سیاہ ہوگیا اور میرے ساتھ ایک قاصد کر کے کہا کہ جاؤ ہم لوگ بادشاہ کی طرف چلے جب شہر کے قریب پہنچے تو قاصد نے کہا کہ یہ تمہارے اونٹ شہر میں نہ جانے پاویں گے اگر کہو تو عربی خچردل پر سوار کر کے تمہیں لے چلیں ہشام نے کہا کہ اللہ کی قسم اگر ہم چاہیں گے تو ان ہی اپنی سواریوں پر جائیں گے قاصد نے بادشاہ کے پاس آدمی بھیج کر دریافت کیا کہ یہ لوگ عربی خچروں پر سوار ہو کر آنے سے انکار کرتے ہیں بادشاہ نے حکم دیا کہ انہیں کی سواریوں پر ان کو آنے دو ہشام کہتے ہیں کہ ہم تلواریں لگائے ہوئے تھے جب اندر داخل ہونے کے قریب پہنچے تو اس کے جہروں کے نیچے اپنے اونٹوں کو بٹھادیا اور لا الہ الا اللہ واللہ اکبر کہا اللہ جانتا ہے کہ وہ برآمدہ گر پڑا بادشاہ نے میرے پاس آدمی بھیجا کہ تمہیں زور سے چلا کر اپنے دین کی بات کا کہنا زیبا نہیں ہے پھر ہمیں اپنے پاس بلایا فرش پر بیٹھا ہوا تھا اور ارد گرد علماء روم بیٹھے تھے اس کی مجلس میں ہر شے لال رنگ کی تھی کپڑے بھی لال رنگ کے پہنے ہوئے تھا ہمیں دیکھ کر ہنسا اور کہا کہ اگر تم ہم کو سلام کرتے تو کیا نقصان تھا اس کے پاس ایک عربی مترجم بھی تھا جو بڑا زبان آور تھا وہی ترجمہ کر کے عربی سے رومی زبان میں اس کو سمجھاتا تھا میں نے کہا کہ ہمار آپس کا سلام تہمارے لئے درست نہیں ہے اور جو تمہار سلام ہے وہ ہم کہہ نہیں سکتے اس نے پوچھا تم آپس میں کس طرح سلام کیا کرتے ہو میں نے کہا السلام پھر اس نے کہا کہ سب سے بڑا کلام تمہارا کیا ہے میں نے کہا لا الہ الا اللہ واللہ اکبر جب ہم نے یہ کلمہ کہا تھا تو یہ بر آمدہ گر پڑا اس نے سر اٹھا کر دیکھا اور کہا کہ اس کلمہ سے بر آمدہ گر پڑا تو جب اپنے گھروں میں بھی یہ کلمہ کہتے ہوگے تو کوئی مکان گرپڑتا ہوگا میں نے کہا کہ نہیں سوائے آج کے اور کبھی یہ بات نہیں دیکھی پھر ہم سے پوچھا کہ کس ارادہ سے تمہارا آنا ہوا میں نے دعوت اسلام پہنچائی اس نے ہماری نمازوں اور روزوں کا حال پوچھا میں نے سب بتلادیا پھر اس نے ہم کو ایک عمدہ مکان میں اتارا اور تین روز مہمان رکھا پھر رات کے وقت آدمی بھیج کر بلایا اور ہم سے وہی پہلے کے سوال کئے میں نے وہی جواب دیئے پھر ہم کو ایک سنہری حویلی میں لے گیا جس میں چھوٹے چھوٹے دروازے تھے ایک دروازہ کا قفل کھول کر ایک سیاہ حریر کا کپڑا نکال کر پھیلایا اس میں ایک تصویر لال رنگ کی تھی جس کی بڑی بڑی آنکھیں تھیں گردن ایسی لانبی تھی کہ ہم نے کبھی ایسی نہیں دیکھی وہ شخص احسن خلق اللہ معلوم ہوتا تھا بادشاہ نے پوچھا تم انہیں پہچانتے ہو ہم نے کہا نہیں کہا کہ یہ آدم (علیہ السلام) ہیں ہم نے دیکھا تو ان کے سر میں بال لوگوں سے زیادہ تھے پھر دوسرا دروازہ کھول کر ایک کالا حریر نکالا جس میں ایک سفید تصویر تھی بال گھونگریالے تھے لال لال آنکھیں بڑا سر ڈاڑھی گھنی پوچھا کہ ان کو جانتے ہو ہم نے کہا کہ نہیں اس نے بتلایا یہ نوح (علیہ السلام) ہیں پھر ایک اور دروازہ کھول کر سیاہ حریر نکالا جس میں ایک صورت بہت ہی سفید اور نہایت خوبصورت آنکھیں کھلی پیشانی لانبا چہرہ سفید ڈاڑھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مسکرار ہے ہیں ہم سے پوچھا کہ پہچانتے ہو یہ کون ہیں ہم نے کہا کہ نہیں کہا کہ یہ ابراہیم (علیہ السلام) ہیں پھر ایک دروازہ کھول کر تصویر نکالی جو بالکل سفید تھی واللہ وہ رسول خدا ﷺ تھے ہم نے دیکھتے ہی پہچان لیا اس نے پوچھا انہیں جانتے ہو یہ کون ہیں ہم نے رو کر کہا کہ ہاں یہ محمد ﷺ ہیں وہ کھڑا ہوگیا اور کہا اللہ کی قسم یہ وہی ہیں ہم نے کہا ہاں گویا تم اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھ رہے ہو تھوڑی دیر خاموش رہ کر اس تصویر کو دیکھتا رہا پھر کہنے لگا کہ یہ آخری خانہ تھا میں نے جلدی کی کہ تم اس تصویر کو دیکھ کر کیا کہتے ہو پھر دوسرا دروازہ کھول کر سیاہ حریر نکالا جس میں سانولے رنگ کی تصوریر تھی کسی قدر رنگ زرد تھا گھونگر والے بال تھے آنکھیں گہری تیز نظر دانت برابر برار ہونٹ موٹے موٹے چہرہ سے غصہ ٹپک رہا تھا مجھ سے پوچھا کہ پہچانتے ہو میں نے کہا نہیں بتلایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں ان کی بغل میں ایک اور تصویر انہیں کی شکل سے ملتی جلتی تھی مگر بال چکنے چکے پیشانی چوڑی آنکھیں ابھری ہوئی پوچھا کہ پہچانتے ہو میں نے کہا نہیں کہا یہ ہارون بن عمران (علیہ السلام) ہیں پھر ایک اور دروازہ کھولا اور ایک سفید حریر نکال کر دکھلایا جس میں ایک شبیہ تھی جس کا رنگ گندمی تھا بال سیدھے سیدھے قد میانہ تھا چہرہ سے غصہ ظاہر تھا اس نے پوچھا ان کو پہچانتے ہو ہم نے کہا کہ نہیں کہا کہ یہ لوط (علیہ السلام) ہیں پھر ایک دوسرا دروازہ کھولا اور سفید حریر نکالا جس میں سفید وسرخ تصویر تھی ناک اونچی چہرہ خوبصورت پوچھا کہ ان کو پہچانتے ہو ہم نے کہا نہیں کہا یہ اسحاق (علیہ السلام) ہیں پھر ایک دروازہ کھول کر سفید حریر نکالا اس میں اسحاق (علیہ السلام) کے مشابہ تصویر تھی جس کے ہونٹ پر تل تھا کہا اس کو جانتے ہو میں نے کہا نہیں کہا یہ یعقوب (علیہ السلام) ہیں پھر ایک دروازہ کھول کر ایک ریشمی کالا کپڑا نکالا جس میں ایک تصویر سفید رنگ حسین ناک لانبی موزون قد رنگ سرخی مائل تھا چہرے پر نور برس رہا تھا پوچھا ان کو پہچانتے ہو میں نے کہا کہ نہیں کہا یہ اسماعیل (علیہ السلام) ہیں تمہارے نبی ﷺ کے دادا پھر ایک دروازہ کھولا اور سفید حریر نکالا جس میں ایک تصویر مشابہ آدم (علیہ السلام) کے تھی اور سورج کی طرح چہرہ چمک رہا تھا پوچھا کہ پہچانتے ہو ہم نے کہا کہ نہیں کہا کر یہ یوسف (علیہ السلام) ہیں پھر ایک دروازہ کھولا اور سفید حریر نکالا جس میں سرخ رنگ کی تصویر تھی پنڈلیاں پتلی پتلی آنکھیں چھوٹی چھوٹی پیٹ بڑا قد درمیانہ تلوار لٹکائے ہوئے پوچھا ان کو جانتے ہو ہم نے کہا نہیں کہا یہ حضرت داؤد (علیہ السلام) ہیں پھر ایک اور دروازہ کھولا اور سفید حریر نکالا جس میں ایک گھوڑے سوار کی تصویر تھی پیر لانبے لانبے کہا ان کو پہچانتے ہو ہم نے کہا کہ نہیں بولا کہ یہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ہیں پھر ایک دروازہ کھول کر سیاہ حریر نکالا جس میں سفید تصویر تھی ایک جوان شخص جس کی آنکھیں نہایت حسین کالی ڈاڑھی خوبصورت پوچھا ان کو پہچانتے ہو ہم نے کہا نہیں کہا کہ یہ عیسیٰ السلام ہیں ہم نے یہ صورتیں دیکھ کر کہا کہ تم نے یہ کہاں سے حاصل کیں مجھے معلوم ہوتا ہے کہ یہ انبیا (علیہم السلام) کی شبیہ ہیں کیونکہ ہم نے اپنے رسول اللہ ﷺ کی بعینہ شبیہ دیکھی ہے جواب دیا کہ آدم (علیہ السلام) نے اللہ پاک سے سوال کیا تھا کہ میری اولاد میں جتنے انبیاء ہوں گے انکی صورتیں مجھے دکھلا دی جاویں اس پر یہ تصویریں اتری تھیں اور خزانہ آدم (علیہ السلام) میں تھیں ذوالقرنین نے وہاں سے نکال کر ان کو دانیال (علیہ السلام) کے سپرد کیا تھا پھر کہنے لگا کہ اللہ کی قسم میرا جی اس بات کو بہت خوشی سے چاہتا ہے کہ میں اپنا ملک چھوڑ کر مرتے دم تک کسی کا غلام بن کر زندگی بسر کروں خواہ وہ شخص کج خلق شریر النفس ہی کیوں نہ ہو۔ پھر ہم کو انعام دے کر رخصت کیا ہم نے واپس آ کر ابوبکر صدیق ؓ سے یہ قصہ تمام و کمال بیان کیا ابوبکر صدیق ؓ روئے اور کہا کہ وہ مسکین ہے اگر خدا اس کے ساتھ بہتری کا ارادہ کریگا اس کو ایمان نصیب ہوگا پھر فرمایا کہ ہم کو رسول اللہ ﷺ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ نصاریٰ یہود اپنی کتابوں میں محمد ﷺ کی صفت پاتے ہیں اس حدیث کو بیہقی نے بھی دلائل النبوۃ میں مع اسناد کے بیان کیا ہے اور اس کی سند کو جید بتلایا ہے جس سے حاکم کی روایت کو تقویۃ حاصل ہوجاتی ہے اس کے سوا اور بہت سی حدیثیں ہیں جن کے یہ ذکر ہے کہ اہل کتاب حضرت صلعم کی صفات اپنی کتابوں میں پاتے ہیں اور اس کا اقرار کرتے ہیں پھر اللہ پاک نے نبی کی تعریف بیان کی کہ وہ لوگوں کو امر بالمعروف کا حکم دیگا اور نہی عن المنکر کو جاری رکھے گا اور اگلی کتابوں میں بھی اسی طرح حضرت (علیہ السلام) کی صفت مذکور ہے کہ آپ خیر کا حکم فرمائیں گے اور شر سے منع کریں گے چناچہ یہ صفت آپ میں کامل طور سے پائی جاتی تھی امام احمد اپنی مسند میں ابوحمید اور ابواسید سے جید سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ فرمایا رسول خدا ﷺ نے جب کوئی میری حدیث سنو جس کو تمہارے دل قبول کریں اور رونگٹے کھڑے ہوجاویں تو وہ میری حدیث ہے اور اگر ایسی حدیث میری طرف سے تم سنو جس کو تمہارے دل قبول نہ کریں اور رقت نہ طاری ہو تو سمجھ لو کہ میں اس سے بہت دور ہوں پھر ایک اللہ پاک نے دوسری صفت آپ کی بیان فرمائی کہ وہ نبی امی تم لوگوں کے لئے بڑی چیز دل کو حرام کردے گا اور پاک چیزوں کو حلال مقرر کریگا لوگوں نے جن چیزوں کو اپنے اوپر حرام ٹھہرالیا تھا جیسے مثلا بحیرہ وغیرہ جن کا ذکر سورة مائدہ میں گذرا ان کو اللہ پاک کے حکم سے آنحضرت نے حلال کردیا اور جن چیزوں کو لوگوں نے اپنے اوپر حلال کرلیا تھا جیسے مثلا سود رشوت خون وغیرہ اس کو حرام کیا حضرت عبداللہ عباس ؓ کا قول ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں میں سے جو چیزیں اللہ پاک نے حلال کردی ہیں اس سے بدن اور دین کو نفع پہنچتا ہے اور وہ چیزیں حرام کردی ہیں جو بدن اور دین کو نقصان دیتی ہیں پھر اللہ پاک نے ایک اور صفت رسول امی کی بیان فرمائی کہ جو دفتیں اور مشکتیں پہلی امتوں پر دین کے کاموں میں تھیں ان کو اپنی امت پر بالکل آسان کردیں گے جیسے اگلی امتوں میں توبہ کے معاملہ پر قتل نفس تھا جس عضو سے گناہ صادر ہوتا تھا اس کا کاٹنا اور جس عضو میں یا کپڑے میں نجاست لگ جاتی ہے اس کو قنیچی سے کتر ڈالنے کا حکم تھا نماز سوائے عبادت خانہ کے اور کہیں جائز نہیں تھی اس کے علاوہ اور بہت سے احکام تھے جو سخت تھے اللہ پاک نے ‘ سب سختیاں آنحضرت ﷺ کی امت پر ان کے طفیل میں آسان کردیں پھر اللہ پاک نے یہ فرمایا کہ جن لوگوں نے آپ کی تعظیم اور تو قیر کی اور آپ پر جو کتاب یا وحی نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کی وہی لوگ دنیا اور آخرت میں فلاح اور اجر پاویں گے صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے تمام انبیاء کی نبوت کو ایک عالیشان محل سے تشبیہ دے کر اپنے آپ کو اسی محل کی آخری اینٹ فرمایا ہے ابو موسیٰ اشعری ؓ کی صحیح بخاری ومسلم کی یہ حدیث بھی گذر چکی ہے کہ اہل کتاب میں سے جو شخص نبی آخر الزمان کو اللہ کا رسول جان کر شریعت محمدی کی پیروی کریگا اس کو دوہرا اجر ملے گا۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے عمر بن عاص ؓ کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے موافق وہ سب لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے اسی طرح مسند امام احمد وغیرہ کے حوالہ سے جابر ؓ کی صحیح حدیث بھی گذرچ کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یہود سے تورات کی بعض باتیں سن کر حضرت عمر ؓ نے آنحضرت ﷺ سے اس بات کی اجازت چاہی تھی کہ تو رات کی ان باتوں کو لکھ لیا جاوے اس پر آنحضرت ﷺ خفا ہوئے اور فرمایا کہ اس آخری وقت میں موسیٰ (علیہ السلام) بھی اگر زندہ ہوتے تو ان پر بھی شرع محمدی کی پیروی لازم ہوتی ہے ان حدیثوں کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیثوں کو ملا کر یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ پہلے صاحب شریعت نبی حضرت نوح (علیہ السلام) سے لیکر خاتم الانبیاء محمد ﷺ تک شریعت الٰہی کا عالیشان محل بالکل پورا ہوگیا ہے جس کے مقابلہ میں سب پچھلی شریعتیں اب اس آخری عہد نبوت میں ادھوری دیواروں کی طرح ہیں۔ تو رات انجیل میں نبی آخر الزمان کے اوصاف اس لئے بیان کئے گئے ہیں کہ اہل کتاب میں سے جو لوگ ان نبی آخر الزمان کا عہد پاویں وہ ان اوصاف سے ان کو پہچان لیں اور ان کی کامل شریعت پر عمل کر کے عقبے میں دوہرا اجر پاویں تاکہ پچھلی منسوخ شریعتوں پر عمل کر کے اپنے عملوں کو رائیگاں نہ کریں کیونکہ تقدیر الٰہی میں یہ بات قرار پاچکی ہے کہ اس آخری عہد نبوت میں عقبے کی کامیابی اور وہاں مراد کو پہنچنا اس کامل شریعت کی پابندی پر منحصر ہے یہاں تک کہ پچھلی امتیں تو درکنار اس آخری عہد نبوت میں پچھلے انبیاء بھی اگر زندہ ہوتے تو ان پر بھی اسی کامل شریعت کی پیروی لازم ہوتی اس لئے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے ہزا رہا برس پہلے جبکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے ہر ایک عہد اور زمانہ کی مصلحت کے موافق ایک شریعت ٹھہرادی ہے تو اب شریعت وقتیہ کو چھوڑ کر غیر وقتیہ شریعت پر عمل کرنا علاوہ انتظام الٰہی میں خلل ڈالنے کے درپے ہونے کے غیروقتیہ شریعت کے موافق جو عمل ہوں گے وہ سب اکارت ہوجاویں گے کیونکہ کار آمد عمل تو وہی ہوسکتا ہے جو حکم الٰہی کے موافق رائج الوقت شریعت کے مطابق ہوا اس واسطے غیر رائج الوقت شریعت پر عمل کر کے ان عملوں کو عقبیٰ میں کار آمد اور قابل اجرگمان کرنا ایسا ہی ایک گمان ہے جیسے دنیا میں کوئی وکیل منسوخ قانون کے کسی دفعہ کے موافق کسی مقدمہ کی پیروی کرے اور بھر اس مقدمہ میں کا میابی کی توقع رکھے :۔
Top