Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 178
مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِیْ١ۚ وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ
مَنْ : جو۔ جس يَّهْدِ : ہدایت دے اللّٰهُ : اللہ فَهُوَ : تو وہی الْمُهْتَدِيْ : ہدایت یافتہ وَمَنْ : اور جس يُّضْلِلْ : گمراہ کردے فَاُولٰٓئِكَ : سو وہی لوگ هُمُ : وہ الْخٰسِرُوْنَ : گھاٹا پانے والے
جس کو خدا ہدایت دے وہی راہ یاب ہے۔ اور جس کو گمراہ کرے تو ایسے ہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔
178۔ یہ اللہ پاک نے اس بات کی صراحت فرمائی کہ ہدایت اور گمراہی دونوں خدا کے ہاتھ میں ہیں جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو ہدایت کرتا ہے وہ ہدایت پا جاتا ہے ایسا نہیں ہوتا کہ جس کو خدا ہدایت کرے وہ گمراہ کا گمراہ ہی رہے اور جس کو وہ گمراہ کردیتا ہے اس کا کوئی ہدایت کرنے والا نہیں ہے اور ایسے لوگ بڑا نقصان اٹھاتے ہیں صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود ؓ کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ماں پیٹ میں جب بچے کا پتلا چار مہینے کے عرصہ میں بن کر تیار ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے علم ازلی کے موافق یہ لکھ لیا جاتا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد یہ بچہ نیک اٹھے گا یا بد اس لکھنے کے موافق جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم میں نیک ٹھہر چکے ہیں ان سے اللہ تعالیٰ دنیا میں نیک کام لیتا ہے اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم ازلی میں بدقرار پاچکے ہیں ان کو مجبور کیا جا کر راہ راست پر لانا منظور الٰہی نہیں 1 ؎ ہے کیونکہ دنیا نیک وبد کے اس امتحان کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ دنیا میں کون شخص اپنے اختیار سے نیک کام کرتا ہے اور کون شخص بڑے کاموں میں اپنی عمر گذارتا ہے مجبوری کی حالت میں یہ امتحان باقی نہیں رہتا اس لئے مجبور کر کے کسی کو راہ راست پر لانا انتظام الٰہی کے برخلاف ہے اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے اسی لئے کہ آیت اور حدیث کو ملا کر یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ اپنے علم ازلی کے موافق اللہ تعالیٰ نیکوں کو نیک کام میں لگا دیتا ہے اور جو لوگ علم الٰہی میں بد قرار پاچکے ہیں ان کو راہ راست پر لانے کے لئے مجبور کرنا اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے جس سے وہ عمر بھر بدی میں لگے رہیں گے اور اس بدی کی سزا کے سبب سے ان کو عقبے میں بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا :۔ 1 ؎ صحیح بخاری ج 2 ص 976 کتاب القدر۔
Top