Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 182
وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَۚۖ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات کو سَنَسْتَدْرِجُهُمْ : آہستہ آہستہ ان کو پکڑیں گے مِّنْ حَيْثُ : اس طرح لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ نہ جانیں گے (خبر نہ ہوگی)
اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہم ان کو بتدریج اس طریق سے پکڑیں گے کہ ان کو معلوم ہی نہ ہوگا۔
182۔ 183۔ اللہ پاک نے حق پر قائم رہنے والے لوگوں کا حال بیان فرمایا کہ اس آیت میں ان لوگوں کا حال بیان کیا جو حق باتوں کے مخالف ہیں مراد اس سے روئے زمین کے کل کافر ہیں جو قرآن کی آیتوں کو نہیں مانتے اور اس کی باتوں کو جھٹلاتے ہیں فرمایا ایسے لوگوں کو ہم آہستہ آہستہ پکڑیں گے ان کو معلوم بھی نہیں ہونے کا پہلے تو ان کو اس طرح پر ڈھیل دی جاوے گی کہ ان کے روزی میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کردیں گے مال دولت ہے انتہا دیں گے ہر طرح ان کو خوش وخرم رکھیں گے اور وہ لوگ ان نعمتوں کو دیکھ کر یہ گمان کرنے لگیں گے کہ وہ راہ راست پر ہیں اس لئے ان پر اللہ کا یہ فضل ہے مگر حقیقت میں یہ فضل و انعام نہیں ڈھیل ہے پھر فرمایا کہ اللہ کی پکڑ اس طرح پر ہوگی جب وہ لوگ خوب مال ہست ہوجاویں گے تو ہم ان کو ایک دفعہ ہی اس طرح مضبوطی کے ساتھ پکڑیں گے کہ ان کی رہائی نہ ہوگی صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عمر وبن عوف ؓ انصاری کی حدیث گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھ کو اپنی امت کی تنگدستی کی حالت کا کچھ خوف نہیں ہے بلکہ مجھ کو یہ خوف ہے کہ جب ان کو پچھلی امتوں کی طرح فارغ البالی ہوجاویگی تو ان میں طرح طرح کے فساد پیدا ہوجاویں 1 ؎ گے اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیث کے ملانے سے یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ فارغ البالی نیک و بد ہر ایک شخص کے لئے دنیا میں بڑے امتحان کی چیز ہے دنیا کی فارغ البالی کے بعد جو شخص عقبے سے ایسا غافل ہوگیا جس طرح کے غافل لوگوں کا ذکر آیت اور حدیث میں ہے تو اس طرح کا شخص اس امتحان میں پوا نہیں اترا ہاں جس شخص نے دنیا کی فارغ البالی سے عقبے کی کچھ بہبودی کمائی وہ شخص اس امتحان میں گویا پورا ہے :۔ 1 ؎ یعنی جلد ہذا ص 285 پر بحوالہ صحیح بخاری ج 2 ص 951 باب الجذء رمن زہرۃ الدنیاء لخ و صحیح مسلم ج 2 ص 407 کتاب الزہد۔
Top