Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 201
اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَاهُمْ مُّبْصِرُوْنَۚ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ اتَّقَوْا : ڈرتے ہیں اِذَا : جب مَسَّهُمْ : انہیں چھوتا ہے (پہنچتا ہے طٰٓئِفٌ : کوئی گزرنے والا (وسوسہ) مِّنَ : سے الشَّيْطٰنِ : شیطان تَذَكَّرُوْا : وہ یاد کرتے ہیں فَاِذَا : تو فوراً هُمْ : وہ مُّبْصِرُوْنَ : دیکھ لیتے ہیں
جو لوگ پرہیزگار ہیں جب ان کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہوتا ہے تو چونک پڑتے ہیں اور (دل کی آنکھیں کھول کر) دیکھنے لگتے ہیں۔
201۔ 202۔ اللہ پاک نے جب آنحضرت ﷺ کو یہ بتلا دیا کہ اگر تمہارے دل میں شیطان کوئی وسوسہ ڈالے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنی چاہیے اس کے بعد اب عام لوگوں کے واسطے یہ بیان فرمایا کہ آدمی دو ہی قسم کے ہیں بعضے تو وہ ہیں جن کے دل میں خدا کا خوف ہے اور متقی ہیں گناہوں سے بچتے رہتے ہیں اور بعضے وہ جو کافر فاجر ہیں نہ ان کے دل میں خدا کا خوف ہے نہ وہ گناہوں سے بچتے ہیں تو اللہ پاک نے ان دونوں طرح کے آدمیوں کے حال کو یوں بیان فرمایا کہ جو لوگ متقی ہیں جب وہ شیطان کے وسوسہ میں پڑجاتے ہیں اور اس کے ورغلانے سے کوئی لغزش ان سے ہوجاتی ہے تو فورا وہ خدا کے عذاب کو یاد کر کے توبہ و استغفار کرلیتے ہیں ان کی شان میں یہ فرمایا کہ یہ لوگ صاحب بصیرت ہیں ان کے دلوں کے اندر آنکھیں ہیں جن سے یہ خدا کو دیکھتے ہیں اور پہچانتے ہیں۔ حافظ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں ایک بزرگ کے حال میں لکھا ہے کہ ایک جوان مسجد میں جاکر عبادت کیا کرتا گھر میں جاتے دفعہ اس کو یہ آیت یاد آگئی اور بےہوش ہو کر گر پڑا جب ہوش میں آیا تو پھر اس آیت کو یاد کیا اور مرگیا اور رات کو یہ دفن کیا گیا لوگوں نے قبر پر آکر نماز پڑہی پھر ان بزرگ نے پکار کر کہا کہ اے جوان ولمن خاف مقام ر بہ جنتان (55: 46) جس کا مطلب یہ ہے کہ جو خدا کا خوف کرتا ہے اسے دو جنتیں ملتی ہیں قبر کے اندر سے آواز آئی اللہ پاک نے اپنے وعدہ کے موافق دو حنتیں مجھے دی ہیں۔ پھر اللہ پاک نے اس دوسری قسم کے آدمیوں کا حال بیان فرمایا کہ جو لوگ کافر فاجر ہیں وہ اخوان الشیطین ہیں شیطان ان کو ہمیشہ گمراہی کی طرف کھینچتا چلا جاتا ہے اور یہ بھی اس کے ساتھ کھینچتے جاتے ہیں نہ شیطان ان کے بہکانے میں کمی کرتا ہے نہ یہ لوگ اس کی پیروی میں کمی کرتے ہیں۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمر وبن العاص ؓ کی حدیث اوپر گذر چکی ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے نتیجے کے طور پر وہ سب لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے 1 ؎ اور اسی طرح صحیح مسلم کے حوالہ سے جابر ؓ کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا شیطان خود تو اپنا تخت سمندر میں بچھا کر بیٹھ جاتا ہے اور اپنے شیاطین کو لوگوں کے بہکانے کے لئے بھیجا کرتا ہے 2 ؎ اس طرح صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود ؓ کی حدیث بھی گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہر شخص کے ساتھ ایک فرشتہ رہتا ہے جو اس کو نیک کام کی صلاح دیتا رہتا ہے اور ایک شیطان رہتا ہے جو اس کو برے کاموں کی رغبت دلاتا رہتا ہے 3 ؎ ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیتوں اور حدیثوں کو ملا کر یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ اگرچہ شیطان سب لوگوں کے بہکانے کے لئے اپنے شیاطینوں کو بھیجتا رہتا ہے لیکن جو لوگ علم الٰہی میں ٹھہر چکے ہیں وہ اللہ کے فرشتہ کی صلاح کے ہمیشہ پابند رہتے ہیں اور جو لوگ علم الٰہی میں بدقرار پاچکے ہیں وہ ہمیشہ شیاطین کی رغبت کے پابند رہتے ہیں :۔ 1 ؎ صحیح مسلم ج 2 ص 235 باب حجاج آدم و موسیٰ (علیہما السلام) الخ 2 ؎ صحیح مسلم ج 2 ص 376 باب تحریش الشیطان الخ 3 ؎ صحیح مسلم ج 2 ص 376 باب تحریش الشیطان الخ
Top