Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 34
وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ١ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ
وَلِكُلِّ اُمَّةٍ : اور ہر امت کے لیے اَجَلٌ : ایک مدت مقرر فَاِذَا : پس جب جَآءَ : آئے گا اَجَلُهُمْ : ان کا مقررہ وقت لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ : نہ وہ پیچھے ہوسکیں گے سَاعَةً : ایک گھڑی وَّلَا : اور نہ يَسْتَقْدِمُوْنَ : آگے بڑھ سکیں گے
اور ہر ایک فرقے کیلئے موت کا ایک وقت مقرر ہے۔ جب وہ وقت آجاتا ہے تو نہ تو ایک گھڑی دیر کرتا ہے اور نہ ایک گھڑی جلدی کرتا ہے۔
(34 ۔ 36) ۔ اہل مکہ عذاب کی جو جلدی کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرمایا ہر کام کا وقت اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقرر ہے وقت مقررہ پر اگر اللہ کو منظور ہوگا تو عذاب آوے گا غرض عذاب کے وقت ایسا ہی مقرر ہے جس طرح سب کی آنکھوں کے سامنے ہر ایک شخص کے لئے ہر زمانہ میں موت کا ایک وقت مقرر ہے اس سے ایک ساعت کوئی آگے پیچھے نہیں ہوتا وعدہ کم نہ زیادہ جمہور کا یہی مذہب ہے کہ انسان کی عمر گھٹتی بڑھتی نہیں خواہ قتل کر ڈالنے سے مرا ہو یا ڈوبنے جلنے وغیرہ سے ہر ایک اپنی موت سے مرتا ہے عمر کی کمی بیشی کے باب میں سلف کے مابین ایک بڑی بحث ہے۔ حاصل یہ ہے کہ صحیح حبان اور مستدرک حاکم میں ثوبان ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ سے فرمایا کہ نیکی کرنے سے آدمی کی عمر بڑھ جاتی ہے اس سے اور اس قسم کی اور حدیثوں سے ان صحابہ کے قول کی بڑی تائید ہوتی ہے جو دنیا عالم اسباب میں بعضے سببوں کو عمر کے گھٹنے بڑھنے کا ذریعہ قرار دیتے ہیں زیادہ تفصیل اس مسئلہ کی سورة (رعد میں آوے گی حاکم نے ثوبان ؓ کی اس حدیث کو صحیح کہا ہے موت کے ذکر کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہمارے رسول تم میں سے تمہارے پاس ہماری آیتیں لاکر بیان کریں گے سو جو کوئی پرہیز گاری اختیار کرے گا اور رسولوں کی فرمانبرداری کر کے اپنے حال کو سنواریگا اور مناہی کی چیزوں سے بچا رہیگا اس کی قیامت کے روز کچھ خوف وغم نہ ہوگا اور جو ہماری آیتوں اور رسولوں کو جھٹلاویگا اور تکبر سے ان پر عمل نہ کرے گا وہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث گذر چکی ہے جس میں حضرت ﷺ نے فرمایا میں لوگوں کو کو لیاں بھر بھر کے ان کو آگ میں گرنے سے بچانا چاہتا ہوں لیکن لوگ آگ میں گرنے کی ایسی جرأت کرتے ہیں جس طرح کیڑے پتنگے روشنی پر گرنے کی جرأت کرتے ہیں یہ حدیث آیت کی گویا تفسیر ہے حاصل مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے قرآن کی نصیحت کو مان کر کچھ عقبے کا سامان کرلیا وہ رسول اللہ کی کوشش سے قیامت کے دن آگ میں گرنے سے بچیں گے اور جو لوگ قرآن کی نصیحت سے غافل ہیں وہ قیامت کے دن دوزخ کی آگ میں اس طرح جاپڑیں گے جس طرح روشنی پر کیڑے پتنگے گرتے ہیں :۔
Top