Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 46
وَ بَیْنَهُمَا حِجَابٌ١ۚ وَ عَلَى الْاَعْرَافِ رِجَالٌ یَّعْرِفُوْنَ كُلًّۢا بِسِیْمٰىهُمْ١ۚ وَ نَادَوْا اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ١۫ لَمْ یَدْخُلُوْهَا وَ هُمْ یَطْمَعُوْنَ
وَبَيْنَهُمَا : اور ان کے درمیان حِجَابٌ : ایک حجاب وَ : اور عَلَي : پر الْاَعْرَافِ : اعراف رِجَالٌ : کچھ آدمی يَّعْرِفُوْنَ : پہچان لیں گے كُلًّا : ہر ایک بِسِیْمٰفُمْ : ان کی پیشانی سے وَنَادَوْا : اور پکاریں گے اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ : جنت والے اَنْ : کہ سَلٰمٌ : سلام عَلَيْكُمْ : تم پر لَمْ يَدْخُلُوْهَا : وہ اس میں داخل نہیں ہوئے وَهُمْ : اور وہ يَطْمَعُوْنَ : امیدوار ہیں
ان دونوں بہشتیوں اور دوزخیوں کے درمیان اعراف کا نام ایک دیوار ہوگی اور اعراف پر کچھ آدمی ہونگے جو سب کو ان کی صورتوں سے پہچان لیں گے تو وہ اہل بہشت کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو۔ یہ لوگ ابھی بہشت میں داخل تو نہیں ہونگے مگر امید رکھتے ہونگے۔
(46 ۔ 47) ۔ مجاہد کا قول ہے کہ جنت اور دوزخ کے درمیان میں اعراف ایک دیوار ہے جس میں دروازہ ہے حضرت ابن عباس ﷺ کا قول ہے کہ اعراف اونچی چیز کو کہتے ہیں دوزخ و جنت کے بیچ میں ایک دیوار ہے اس جگہ گنہگار لوگ روکے جاوینگے ضحاک کا بھی یہی قول ہے اور اکثر مفسرین اسی طرف گئے ہیں یہ تو گذر چکا کہ جنت اور دوزخ کے بیچ میں ایک بلند دیوار پہاڑ کی طرح کی ہے اس کا نام اعراف ہے جن لوگوں کی بدیاں اور نیکیاں برابر ہوں گی ان کا فیصلہ سب سے پیچھے قیامت کے دن ہوگا کیونکہ ان کی نیکیوں کا پلہ ایسا بھاری ہوگا کہ فورا ان کو جنت کا حکم ہوجاوے نہ بدیاں ایسی ہوں گی کہ دوزخی ٹھہر جاویں اس لئے زیادہ نیکیوں والے جنت میں اور زیادہ بدیوں والے دوزخ میں جب تک حساب کتاب کے بعد جاویں گے اس وقت تک ان لوگوں کو اعراف دیوار پر کھڑا کردیا جاویگا یہ وہاں سے جنتی اور دوزخی دونوں گروہ کے لوگوں کی جنت اور دوزخ میں جاتے ہوئے دیکھیں گے اور وہ باتیں کریں گے جن کا ذکر آیت میں ہے مفسرین نے اہل اعراف کی تفسیر میں کئی قول لکھے ہیں مگر صحیح قول یہی ہے جو بیان کیا گیا ہے کیونکہ امام المفسرین عبداللہ بن عباس ؓ عبداللہ بن مسعود ؓ ۔ حذیفہ بن الیمان ؓ ان تین جلیل القدر صحابیوں نے بالا تفاق آیت کی یہی تفسیر کی ہے۔ یعر فون کلابسیماھم۔ سیما کے معنے علامت کے ہیں۔ اہل جنت کے چہروں پر رونق اور اہل دوزخ کے چہروں پر آزردگی اور سیاہی جو ہوگی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے قول کے موافق اسی کو علامت فرمایا ہے۔ معتبر سند سے ترمذی اور صحیح ابن حبان میں ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے جس میں حضرت ﷺ نے فرمایا جن کے نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دئے جاویں گے ان کے چہروں پر ایک طرح کی رونق آجاوے گی اور جن کے نامئہ اعمال بائیں ہاتھ میں دئے جاویں گے ان کے چہروں پر ایک طرح کی سیاہی چھاجاویگی اس حدیث سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے کہ وہ علامت چہروں کی رونق اور سیاہی ہوگی جس سے اہل اعراف جنتیوں اور دوزخیوں کی پہچان کرلیں گے کیونکہ دائیں ہاتھ کے نامہ اعمال والے جنتی ہوں گے اور بائیں ہاتھ کے نامہ اعمال والے دوزخی چناچہ اس کا ذکر تفصیل سے آوے گا :۔ اعراف والے جنت والوں کو پہچان کر سلام علیکم پکار کر کہیں گے اور ان کو جنت میں جانے کی خوش خبری دیں گے مگر ابھی خود جنت میں داخل نہ ہوں گے ہاں جنت میں داخل ہونے کے امیدوار ہوں گے اور جب اعراف والوں کی نگاہ دوزخیوں کی طرف پھرے گی تو ان کو پہچان کر یہ دعا مانگیں گے کہ اے پروردگار ہم کو اس قوم ظالم کے ساتھ نہ کیجیو اوپر گذر چکا ہے کہ اعراف والے بہشتیوں کو ان کہ چہروں کی سفیدی سے اور درزخیوں کو ان کے چہرہ کی سیاہی سے پہچان لیں گے ضحاک نے بھی یہ ہی کہا ہے۔ غرض اہل اعراف دوزخیوں کو چہرہ کی سیاہی سے پہچان کر پروردگار سے پناہ مانگیں گے کہ ہم کو ان ظالموں کے ساتھ نہ کرنا اوپر گذر چکا ہے کہ اعراف والے بہشتیوں کو ان کے چہروں کی سفیدی سے اور دوزخیوں کو ان کے چہرہ کی سیاہی سے پہچان لیں گے ضحاک نے بھی یہ ہی کہا ہے۔ غرض اہل اعراف دوزخیوں کو چہرہ کی سیاہی سے پہچان کر پروردگار سے پناہ مانگیں گے کہ ہم کو ان ظالموں کے ساتھ نہ کرنا اور جنت والوں کو سلام کریں گے مجاہد وضحاک وسدی وحسن وابن زید یہ بھی کہتے ہیں کہ آخر کو اہل اعراف بھی جنت میں جاویں گے
Top