Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 50
وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ النَّارِ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ اَفِیْضُوْا عَلَیْنَا مِنَ الْمَآءِ اَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ١ؕ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكٰفِرِیْنَۙ
وَنَادٰٓي : اور پکاریں گے اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے اَصْحٰبَ : والے الْجَنَّةِ : جنت اَنْ : کہ اَفِيْضُوْا : بہاؤ (پہنچاؤ) عَلَيْنَا : ہم پر مِنَ : سے الْمَآءِ : پانی اَوْ : یا مِمَّا : اس سے جو رَزَقَكُمُ : تمہیں دیا اللّٰهُ : اللہ قَالُوْٓا : وہ کہیں گے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ حَرَّمَهُمَا : اسے حرام کردیا عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور دوزخی بہشتیوں سے گڑگڑا کر کہیں گے کہ کسی قدر ہم پر پانی بہاؤ یا جو رزق خدا نے تمہیں عنایت فرمایا ہے ان میں سے کچھ ہمیں بھی عطا کرو وہ جواب دیں گے کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کافروں پر حرام کردیا ہے
(50 ۔ 51) ۔ دوزخ والے جنت والے سے بھیک کی طرح جنت کی نعمتیں مانگے گیں تو جنتی صاف جواب دیں گے کہ جنت کے یہ دونوں چیزیں خدا تعالیٰ نے تمہارے اوپر حرام کردی ہیں اس لئے تم کو کوئی چیز نہیں مل سکتی تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے کسی نے دریافت کیا کہ بہتر صدقہ کونسا ہے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے جواب دیا پیغمبر ﷺ نے فرمایا ہے کہ بہتر صدقہ پانی ہے کہا پھر تجھ کو معلوم نہیں کہ دوزخی لوگ بہشتیوں سے فریاد کر کے کہیں گے کہ تھوڑا پانی اور تم کو جو اللہ نے رزق دیا ہے اس میں سے کچھ ہم کو بھی دے دو حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ اس آیت میں طعام و شراب سے جنت کا کھانا پینا مقصود ہے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ مانگنے والے پانی اور کھانے کے وہ لوگ ہوں گے جن کو دنیا میں ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا تو وہ ہنستے اور ٹھٹھا کرتے تھے یا جن کو شیطان نے ان کے برے عمل ان کو اچھے دکھلائے تھے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے اس سائل کے جواب میں مبہم طور پر ایک حدیث کا حوالہ جو دیا ہے یہ حدیث سعد بن عبادہ ؓ کے قصے کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ سعد بن عبادہ ؓ کی ماں کا انتقال ہوگیا تھا انہوں نے اپنی ماں کے نام پر کچھ خیرات کے دینے کا مسئلہ حضرت ﷺ سے پوچھا۔ حضرت ﷺ نے عام طور پر مردوں کے نام پر خیرات دینے کا حکم دیا سعد بن عبادہ ؓ نے پھر پوچھا کہ حضرت افضل خیرات کیا ہے آپ نے فرمایا لوگوں کے پانی پینے کا کوئی ذریعہ قائم کردیا جائے سعد بن عبادہ ؓ نے اس کے بعد ایک کنواں کھودوا دیا یہ حدیث خود سعید بن عبادہ ؓ کی روایت سے ابوداؤدو نسائی ابن ماجہ ‘ صحیح ابن خزیمہ صحیح ابن حبان اور مستدرج حاکم میں ہے اگرچہ حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے لیکن اس کی سند میں اعتراض ہے کہ اس کو سعید بن مسیب اور حسن بصر نے سعد بن عبادہ ؓ سے روایت کیا ہے اگر سعید بن مسیب اور حسن بصری دونوں کو سعد بن عبادہ ؓ سے ملاقات اور روایت کا موقعہ نہیں ملاہاں اوسط طبرانی میں یہ حدیث انس بن مالک ؓ کی روایت سے بھی ہے جس کی سند اچھی ہے اس لئے ایک سند کو دوسری سند سے تقویت ہوجاتی ہے۔ معتبر سند سے صحیح ابن حبان میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی روایت ہے جس میں حضرت ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن پانسو برس کے فاصلہ تک جنت کے میووں کی خوشبو آوے گی مگر جن لوگوں کو جنت میں داخل کرنا اللہ تعالیٰ کو منطور نہیں ہے ان کی ناک میں خوشبو نہیں آوے گی۔ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کا جنت میں داخل ہونا اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں ہے ان کو جنت کے کھانے پانی کا میسر آنا تو درکنار بلکہ ایسے لوگوں کی ناک میں بھی جنت کے میووں کی خوشبو نہیں آسکتی صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے جس میں حضرت ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان منکر قیامت لوگوں کو دنیا کی اپنی طرح طرح کی نعمتیں یاد دلاوے گا اور جب یہ لوگ ان نعمتوں کا اقرار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے فرماویگا کہ ان نعمتوں کی شکر گذراری میں تم لوگوں نے آج کے دن کی سرخرئی کے لئے کچھ میری یاد بھی کی تھی وہ لوگ کہویں گے کہ نہیں ہیں پر اللہ تعالیٰ فرماویگا جس طرح دنیا میں تم لوگوں نے مجھ کو بھلا دیا اسی طرح آج میں بھی بھولے بسروں کی طرح تم لوگوں کو اپنی نظر رحمت سے دور ڈال دیتا ہوں قرآن اور عقبے کے جن منکر لوگوں کا آخرت میں ذکر ہے قیامت کے دن ان لوگوں کا جو کچھ انجام ہوگا اس کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے :۔
Top