Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 55
اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً١ؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَۚ
اُدْعُوْا : پکارو رَبَّكُمْ : اپنے رب کو تَضَرُّعًا : گر گڑا کر وَّخُفْيَةً : اور آہستہ اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے گزرنے والے
لوگو ! اپنے رب سے عاجزی اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو۔ وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں بناتا۔
(55 ۔ 56) ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دعا مانگنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ گڑ گڑا کر چپکے سے دعا مانگو تاکہ ریا نہ ہو وے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ خفیہ کے معنے پوشیدہ کے ہیں ابن جریر نے تضرع کے معنے گرگڑانے کے بیان کئے ہیں۔ دعا کے اندر چلانے اور چیخنے سے منع کیا گیا ہے صحیح بخاری اور مسلم میں حدیث ہے کہ ابوموسیٰ اشعری ؓ نے کہا جبکہ لوگوں نے دعا میں آوازیں بلند کیں تو پیغمبر ﷺ نے فرمایا کہ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکارتے ہو جو جتلاتے ہو بلکہ جس کو پکارتے ہو وہ سنتا بھی ہے اور قریب ہے پھر کیوں نہیں چپکے سے دعا مانگتے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ دعا میں حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا دعا میں حد سے بڑھنا یہ کہ پیغمبروں کے درجہ کا سوال نہ کرے اور بڑی بات منہ سے نہ نکالے جہاں تک ہو سکے دعا جامع ومختصر ہو جیسے (ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ (2: 26) قرآن میں ہے معتبر سند سے مسند امام احمد ابن ماجہ وابوداود ‘ میں روایت ہے کہ عبداللہ بن مغفل ؓ نے اپنے بیٹے کو یہ دعا مانگتے سنا کہ اے اللہ میں تجھ سے جنت کے داہنے طرف سعید محل مانگتا ہوں عبداللہ نے یہ دعا سن کر اپنے بیٹے سے کہا کہ اے بیٹے طلب کر خدا سے بہشت اور دوزخ سے پناہ چاہ کیونکہ میں نے پیغمبر سے سنا فرماتے تھے کہ لوگ دعا میں حد سے بڑھ جاوینگے پھر خدا تعالیٰ نے اصلاح کے بعد زمین میں فساد کرنے سے منع فرمایا مطلب یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے کتابوں اور رسولوں کو بھیج کر زمین کو سنوار دیا تو اب اس زمین کا بگاڑنا کفر اور شرک کی رسمیں اس میں پھیلانی اور قتل و زنا وغیرہ کا پھیلانا قطعی حرام ہے زمین کے اصلاح و فساد سے مطلب زمین پر رہنے والوں کی اصلاح و فساد ہے۔ اس آیت میں یہ بھی خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ پکارو اس کو ڈر سے اور لالچ سے دعا کرو مطلب یہ ہے کہ دعا کرنے کے وقت جس دعا کرنے والے میں حالت خوف اور امید کی ہوگی وہ اپنے مطلب میں کامیاب ہوگا عذاب سے ڈر کر اور ثواب کا امیدوار ہو کر دعا مانگنی چاہئے پھر فرمایا جو اس طریقہ اور آداب سے خلوص کے ساتھ خدا سے دعا مانگتے ہیں وہ نیکو کار ہیں اور اللہ کی رحمت ان نیکو کاروں کے قریب ہے اللہ تعالیٰ کو بندہ کی عاجزی بہت پسند اور بندہ کا تکبرنا پسند ہے۔ عبادت اور دعا دونوں میں بندہ کی عاجزی پائی جاتی ہے اسی واسطے شریعت میں عبادت اور دعا دونوں کی تاکید آئی ہے۔ دعا کی قبولیت کی بڑی شرط یہ ہے کہ آدمی کا کھانا کپڑا حلال کمائی کا ہو چناچہ مسندامام احمد صحیح مسلم اور ترمذی کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث گذر چکی ہے جس میں حضرت ﷺ نے فرمایا بہت سے لوگ گڑ گڑا کر دعا مانگتے ہیں لیکن انکا کھانا کپڑا حلال کی کمائی کا نہیں ہوتا اس لئے ان کی دعا کا قبول ہونا تو درکنار ان کی عبادت بھی قبول نہیں ہوتی دعا کے قبول ہونے کی باقی تشریح سورة بقر میں گذر چکی ہیں اور معتبر سند سے مسند امام احمد مستدرک حاکم مسند ابویعلی وغیرہ میں جو روایتیں چند صحابہ سے ہیں ان کا حاصل بھی گذر چکی ہیں کہ شرائط کے موافق جو دعا کی جاوے یا تو فورا وہ قبول ہوجاتی ہے اور اگر مصلحت الٰہی میں وہ دعا اس شخص کے حق میں فائدہ مند نہیں تو کوئی برائی اس شخص سے ٹل جاتی ہے اور آخرت میں اس شخص کے لئے ایک اجر اس دعا کا مقرر ہوجاتا ہے۔
Top