Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 59
لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ
لَقَدْ اَرْسَلْنَا : البتہ ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح اِلٰي : طرف قَوْمِهٖ : اس کی قوم فَقَالَ : پس اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا : نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اِنِّىْٓ : بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ عَظِيْمٍ : ایک بڑا دن
ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا۔ تو انہوں نے اس کو کہا اے میری برادری کے لوگوں خدا کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ مجھے تمہارے بارے میں بڑے دن کے عذاب کا بہت ہی ڈر ہے۔
(59 ۔ 64) ۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) سے لے کر حضرت شعیب ( علیہ السلام) تک چند صاحب شریعت انبیاء کے قصے ان رکوعوں میں آنحضرت کی تسکین اور تشفی کے ارادہ سے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں تاکہ آپ کو یہ اطمینان ہوجاوے کہ سرکش قوموں پر انبیاء کے جھٹلانے کا ہمیشہ سے جس طرح وبال پڑا ہے اگر اہل مکہ ایمان نہ لاویں گے تو یہی انجام ان کا ہوگا چناچہ ایسا ہی ہوا کہ اہل مکہ میں اکثر سرکش لوگ بدر کی لڑائی میں مارے گئے اور آپ نے ان کی لاشوں پر ایک ایک کا نام لے کر فرمایا کہ خدا کے وعدے کو تم نے دیکھ لیا اور بقیہ اہل مکہ فتح مکہ پر اسلام لے آئے اگر قضا وقدر میں ان کا ایمان لانا نہ ٹھہرا ہوتا تو پچھلی امتوں کی طرح ضرور سب اہل مکہ ہلاک ہوجاتے سوا اس تشفی کے ان قصوں میں آنحضرت کی نبوت کی بھی دلیل ہے کیونکہ ان پڑھ شخص بغیر تائید غیبی کے اس طرح سینکڑوں برس کا تاریخی حال ممکن نہیں کہ بیان کرچکے پھر تاریخی حال بھی ایسا کہ اس تاریخی حال سے آئندہ کا نتیجہ بھی جو بیان کیا گیا وہی واقعہ ہوا بھلا یہ غیب دانی بغیر تعلیم غیب دان حقیقی کے کس طرح حاصل ہوسکتی ہے حضرت نوح ( علیہ السلام) کے قصہ میں امام بخاری نے وہ شفاعت کی حدیث ذکر کی ہے جس میں لوگوں کا سب انبیاء کے پاس شفاعت کے لئے جانے اور ہر ایک سے شفاعت کی درخواست کا تذکرہ ہے حضرت نوح ( علیہ السلام) کے اوصاف میں یہ تذکرہ جو آیا ہے کہ تم زمین پر پہلے نبی ہو اس پر بعضے علماء نے یہ اعتراض کیا ہے کہ پہلے نبی حضرت آدم ( علیہ السلام) تھے پھر حضرت نوح ( علیہ السلام) کو پہلا نبی اس حدیث میں کس مطلب سے کہا گیا ہے جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ بت پرستی اور شرک پہلے پہل حضرت نوح ( علیہ السلام) کی امت میں پھیلا ہے حضرت نوح ( علیہ السلام) اور حضرت آدم ( علیہ السلام) کے مابین دس عہد جو گذرے ہیں وہ مسلمان لوگ تھے ان پر جتنے نبی آئے کچھ عبادت کے طریقہ اور نصیحت سکھاتے تھے توحید کی تعلیم اور شرک کا مٹانا حضرت نوح ( علیہ السلام) کی نبوت سے شروع ہوا ہے اس واسطے ان کو پہلا نبی اللہ تعالیٰ نے آیت شَرَعَ لَکُمْ مِنَ الَدِیَنَ مَاوَصَّی بہٖ نَوْحًا (42: 13) میں آنحضرت ﷺ نے اس حدیث میں قرار دیا ہے حضرت نوح ( علیہ السلام) حضرت ادریس ( علیہ السلام) کے پر پوتے ہیں حضرت نوح ( علیہ السلام) کی پیدائش اور حضرت آدم ( علیہ السلام) کی وفات میں ایک سوچھبیس 126 برس کا فاصلہ ہے طوفان کے بعد تین سو برس حضرت نوح ( علیہ السلام) زندہ رہے :۔
Top