Ahsan-ut-Tafaseer - Nooh : 25
مِمَّا خَطِیْٓئٰتِهِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا١ۙ۬ فَلَمْ یَجِدُوْا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْصَارًا
مِمَّا : مگر گمراہی میں خَطِيْٓئٰتِهِمْ : خطائیں تھیں ان کی اُغْرِقُوْا : وہ غرق کیے گئے فَاُدْخِلُوْا : پھر فورا داخل کیے گئے نَارًا : آگ میں فَلَمْ : پھر نہ يَجِدُوْا : انہوں نے پایا لَهُمْ : اپنے لیے مِّنْ دُوْنِ : سوا اللّٰهِ : اللہ کے اَنْصَارًا : کوئی مددگار
(آخر) وہ اپنے گناہوں کے سبب ہی غرقاب کردیے گئے پھر آگ میں ڈال دیئے گئے تو انہوں نے خدا کے سوا کسی کو اپنا مددگار نہ پایا
25۔ 28۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی شکایت اور بددعا کا آخر نتیجہ یہ ہوا کہ سوا تھوڑے سے آدمیوں کے جو حضرت نوح کے سمجھانے سے راہ راست پر آگئے تھے اور سب قوم کے لوگ طوفان سے ہلاک ہو کر سیدھے جہنم کو چلے گئے یہ طوفان کا قصہ سورة عنکبوت اور سورة ہود میں تفصیل سے گزر چکا ہے ساڑھے نو سو برس تک حضرت نوح (علیہ السلام) کو اپنی قوم کی سرکشی کا خوب تجربہ ہوچکا تھا اس لئے طوفان کے وقت انہوں نے یہ دعا مانگی کہ یا اللہ اس سرکش قوم میں کا ایک گھر بھی طوفان کی آفت سے باقی نہ رہے کیونکہ ان میں کا ایک گھر بھی باقی رہے گا تو وہ اور ان کی اولاد لوگوں کو بہکائیں گے پھر اپنی ذات اور اپنے ماں باپ اور جو فرمانبردار مرد عورت حضرت نوح کے گھر میں طوفان کی آفت سے امن وامان میں رہنے کے لئے آئے تھے ان کے گناہ معاف ہونے کی دعا۔ اور بت پرستوں کی بربادی کی بددعا پر کلام کو ختم کیا۔ بت پرستی حضرت نوح (علیہ السلام) کے ماں باپ کے بعد پھیلی ہے اس لئے حضرت نوح (علیہ السلام) کے ماں باپ مسلمان تھے حضرت نوح کے باپ کا نام لامک تھا حضرت آدم کے پانچویں پشت کے پوتے تھے۔
Top