بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Insaan : 1
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْئًا مَّذْكُوْرًا
هَلْ اَتٰى : یقیناً آیا (گزرا) عَلَي : پر الْاِنْسَانِ : انسان حِيْنٌ : ایک وقت مِّنَ الدَّهْرِ : زمانہ کا لَمْ يَكُنْ : اور نہ تھا شَيْئًا : کچھ مَّذْكُوْرًا : قابل ذکر
بیشک انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھا
1۔ 3۔ لم یکن شیئا مذکورا کا یہ مطلب ہے کہ انسان کا وجود اگرچہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے علم الٰہی میں تو تھا لیکن آدم (علیہ السلام) کے پیدا ہونے سے پہلے انسان کا کچھ تذکرہ ظاہر نہیں تھا۔ اوپر صحیح 2 ؎ حدیثوں کے حوالہ سے یہ گزر چکا ہے کہ ہر ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو فطرت اسلام پر پیدا کرتا ہے جب تک اس بچہ کی زبان کھلتی ہے اور بات چیت کرنی سیکھتا ہے اس وقت تک اسی فطرت اسلامی کی حالت پر رہتا ہے اور بعد اس کے ہر ایک امت کی ہدایت کے لئے رسول بھیجے جاتے ہیں ہر طرح کی ہدایت آسمانی کتابوں کے ذریعہ سے بیان کی جاتی ہے اگر اس بچہ کے ماں باپ نیک راستہ پر نہ ہوئے تو پھر وہ بچہ ماں باپ کی صحبت سے اور شیطان کے بہکانے سے بگڑ جاتا ہے اس واسطے پہلے پیدائش انسان کا ذکر فرمایا کہ پیدائش کے وقت جو نیک راہ انسان کو دکھا دی جاتی ہے پیدا ہونے کے بعد ہوشیار ہو کر بعض اس پر قائم رہتے ہیں اور بعض نہیں رہتے۔ پھر نیک راہ پر قائم رہنے والوں اور نہ رہنے والوں کے انجام کے طور پر جنت و دوخ کا اور جنت کی طرح طرح نعمتوں اور دوزخ کے طرح طرح کے عذابوں کا ذکر فرمایا۔ اور دنیا میں اہل جنت اور اہل دوزخ کی جو نشانیاں ہیں وہ بھی ذکر فرمائیں کہ اہل جنت وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فرائض کو اور اپنی طرف سے جو نذریں مان لیں اس کو پورا کرتے ہیں اور اللہ کے نام پر محتاجوں کو کھانا کھلاتے رہتے ہیں اور اہل دوزخ وہ ہیں جو عاقبت کو بھولے ہوئے ہیں اور رات دن دنیا کے پھندے میں پھنسے ہوئے ہیں اور فقط ذکر نذر کا اس لئے فرمایا کہ جو شخص اپنی مانی ہوئی نذر کو خالص دل سے اللہ کے واسطے ادا کرے گا وہ اللہ کے فرائض کو ضرور ادا کرے گا۔ صحیحین 1 ؎ میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنت نماز ‘ روزہ ‘ حج ‘ زکوٰۃ اور اس طرح کی شرع کی تکلیف کی چیزوں سے گھری ہوئی ہے اور دوزخ طرح طرح کی حرص و ہوا کی چیزوں سے گھرا ہوا ہے۔ امام نووی 2 ؎ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ جنت اور 2 دوزخ و مکان ہیں اور تکلیفات شرعیہ اور ممنوعات شرعیہ ان دونوں مکانوں کے دو رہبر ہیں جس شخص نے تکلیفات شرعیہ کو اپنا پیشوا اور رہبر بنایا وہ جنتی ہوا اور جس نے دنیا کی حرص و ہوس کی چیزوں کو اپنا پیشوا اور رہبر بنایا وہ دوزخی ہوا۔ صحیح 3 ؎ مسلم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ‘ دنیا ایک بازار ہے بعض لوگ اس بازار سے اپنی ہلاکت کی چیزیں خریدتے ہیں اور بعض لوگ اپنی نجات کی چیزیں خریدتے ہیں۔ امشاج کے معنی مرد اور عورت کی ملی ہوئی منی۔ نبتلیہ کے معنی یہ ہیں کہ علم ازلی میں نیک و بد جو ٹھہر چکے تھے علم ظاہری میں ان کا طہور جانچنے کو انسان کی پیدائش عمل میں آئی کیونکہ علم باطنی پر جزا و سزا کا مدار خلاف انصاف تھا۔ (2 ؎ صحیح بخاری باب اللہ اعلم ماکانوا عاملین ص 976 ج 2۔ ) (1 ؎ صحیح مسلم باب الجنۃ وصفت نعیمھا واھلھا ص 378 ج 2۔ ) (؎ صحیح مسلم باب الجنۃ وصفت نعیمھا واھلھا ص 378 ج 2۔ ) (3 ؎ صحیح مسلم باب فضل الوضوء ص 118 ج 1۔ )
Top