Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Insaan : 13
مُّتَّكِئِیْنَ فِیْهَا عَلَى الْاَرَآئِكِ١ۚ لَا یَرَوْنَ فِیْهَا شَمْسًا وَّ لَا زَمْهَرِیْرًاۚ
مُّتَّكِئِيْنَ : تکیہ لگائے ہوں گے فِيْهَا : اس میں عَلَي الْاَرَآئِكِ ۚ : تختوں پر لَا يَرَوْنَ : وہ نہ دیکھیں گے فِيْهَا : اس میں شَمْسًا : دھوپ وَّلَا : اور نہ زَمْهَرِيْرًا : سردی
ان میں وہ تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے وہاں نہ دھوپ (کی حدت) دیکھیں گے نہ سردی کی شدت
13۔ 22۔ اوپر ذکر تھا کہ نیک لوگوں میں سے ہر ایک گروہ کو اس کے عمل کے موافق جنت کا درجہ ملے گا اور اس درجہ کے موافق ان کو جنت کی نعمتوں کے برتنے کا حق حاصل ہوگا اسی کی تفصیل میں یہ فرمایا تھا کہ جنت کے اعلیٰ درجہ کے مقرب لوگ تو کافوری چشمہ کی اعلیٰ درجہ کی شراب کو عام طور پر برتیں گے اور ابرار لوگوں کی شراب میں اس چشمے کی شراب کی ملونی ہوگی اور یہ بھی فرمایا تھا کہ ان ابرار لوگوں کی پوشاکیں ریشمی ہوں گی ان آیتوں میں ابرار لوگوں کی حالت کی اور تفصیل فرمائی کہ وہ تکئے لگائے چھپرکھٹوں میں بیٹھے ہوں گے اور وہاں گرمی سردی کی ان کو کچھ تکلیف نہ ہوگی۔ بغیر سورج اور چاند کے وہاں قدرت الٰہی سے خود بخود اجالا ہوگا اور اس اجالے کے ساتھ ہمیشہ ایک بیچ کی راس کا موسم رہے گا اگرچہ وہاں سورج نہیں ہے جس کی دھوپ سے بچنے کے لئے سایہ کی ضرورت ہو لیکن زیادہ ٹھنڈک کے لئے گھنے درختوں کی خوب گہری چھائوں ہوگی اور میوے دار درختوں کے میوے اس ڈھب پر لگے ہوں گے کہ ان میووں کو جنتی لوگ کھڑے بیٹھے ہر حالت میں کھا سکیں گے۔ وہاں چاندی کے برتن ایسے شفاف ہوں گے جن میں شیشے کے برتنوں کی طرح اندر کی چیز باہر نظر آئے گی اگرچہ جنت میں کھانے پینے ‘ پہننے ‘ برتنے کی جتنی چیزیں ہیں ان کے فقط نام دنیا کی چیزوں سے ملتے جلتے ہیں لیکن جنت کی چیزوں اور دنیا کی چیزوں میں بڑا فرق ہے جیسے مثلاً دنیا میں ایسا دودھ کہاں ہے جس کی ہمیشہ نہر بہتی ہو اور پھر دوسرے ہی دن وہ کھٹا نہ ہوجائے وہ شہد کہاں ہے جس کی نہر بہتی ہو اور مکھیاں بھنک کر اس میں جم جم کر نہ مریں۔ اور ہوا سے خاک اور کوڑا کرکٹ اس پر نہ پڑے۔ وہ شراب کہاں ہے جس کی نہر ہو اور بدبو کے سبب سے اس نہر کے آس پاس کا راستہ کچھ دنوں میں بند نہ ہوجائے۔ اسی طرح جنت کے یہ چاندی کے برتن ہوں گے جن میں سے اندر کی چیز باہر سے نظر آئے گی۔ دنیا کی زمین مٹی کی ہے اور جنت کی زمین چاندی کی ہوگی جس صاحب قدرت نے دنیا کی زمین کی مٹی میں یہ تاثیر دی ہے کہ اس سے شیشہ بن جاتا ہے اور اس شیشہ کے برتن میں سے اندر کی چیز باہر سے نظر آتی ہے جنت کی زمین کی چاندی میں اس تاثیر کا دے دینا اس کی قدرت سے کیا بعید ہے۔ حضرت عبد اللہ بن 1 ؎ عباس فرمایا کرتے تھے کہ دنیا میں کوئی چاندی کی چیز ایسی شفاف نہیں جس میں اندر کی چیز باہر سے نظر آئے اس لئے وہ برتن جس دن اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے دکھائے گا اسی دن چاندی کا ایسا شفاف ہونا سمجھ میں آئے گا یہ چاندی کے آبخورے پیاس کی مقدار کے موافق ہوں گے تاکہ نہ جھوٹی چیز بچے نہ دوبارہ پھر مانگنے کی ضرورت ہو ابرار لوگوں کی شراب میں کبھی کافور چشمے کی شراب کی ملونی ہوگی اور کبھی زنجبیل چشمہ کی سلسبیل کے معنی بہتا ہوا چشمہ۔ جنت میں نو عمر لڑکے اہل جنت کی خدمت گزاری میں ہوں گے اور وہ خوبصورت لڑکے اسی لڑکپن کی عمر میں ہمیشہ رہیں گے۔ وہ کام کاج میں ہر وقت پھرتے رہیں گے اس لئے ان کی مثال بکھیرے ہوئے موتیوں کی فرمائی۔ تفسیر خازن میں اسی قول کو ترجیح دی ہے کہ حوروں کی پیدائش کی طرح وہ لڑکے بھی جنت کی مخلوقات میں سے ہیں بنی آدم میں سے نہیں ہیں۔ جنت کی نعمتوں کو بڑی بادشاہت اس لئے فرمایا کہ صحیح 1 ؎ مسلم میں مغیرہ بن شعبہ کی جو روایت ہے اس کے موافق ادنیٰ سے ادنیٰ اہل جنت کے قبضہ میں دنیا سے دس چند ملک ہوگا اس طرح ترمذی 2 ؎‘ ابن ماجہ ‘ داری اور صحیح بن حبان میں حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے اس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ادنیٰ سے ادنیٰ اہل جنت کی خدمت میں اسی ہزار خدمت گار اور موتیوں اور یاقوت کے خیمے ہوں گے۔ ترمذی نے اگرچہ اس حدیث کو غریب کہا ہے لیکن صحیح 3 ؎ ابن حبان کی سند معتبر ہے ان حدیثوں سے ہر شخص کی سمجھ میں آسکتا کہ جب ادنیٰ سے ادنیٰ اہل جنت کی یہ شان ہے تو متوسط درجہ اور اعلیٰ درجہ کے اہل جنت کی کیا شان ہوگی۔ اسی واسطے حضرت ابوہریرہ ؓ کی صحیح بخاری 4 ؎ و مسلم کی حدیث میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس قدر جگہ میں گھوڑے کا سوار اپنے گھوڑے کا کوڑا ڈال دیتا ہے جنت کی اتنی سی جگہ تمام دنیا سے بہتر ہے۔ سندس ریشمی باریک کپڑے کو کہتے ہیں اور استبرق موٹے ریشمی کپڑے کو ‘ اس سورة میں چاندی کے کنگنوں کا جو ذکر ہے یہ اہل جنت اور جنت کے درجوں کے موافق ہے جیسا کہ خالص اور ملونی کی شراب کا ذکر گزرا۔ اور سورة واقعہ میں گزر چکا ہے کہ بعض اہل جنت تختوں پر بیٹھیں گے اور بعض فرش پر ‘ شراب طہور وہ شراب ہے جس کے پینے سے اہل جنت کے دل نورانی ہوجائیں گے۔ ان میں آپس کا حسد کوئی مادہ باقی نہ رہے گا۔ جب اہل جنت کو یہ جنت کی سب نعمتیں مل جائیں گی تو انہیں ان نعمتوں کا سبب یوں جتلایا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے تمہاری تھوڑی سی عمر کے اعمالوں کے بدلہ میں یہ ابدالآباد کی نعمتیں تم کو دی ہیں۔ بندوں کی سعی کو اللہ تعالیٰ نے مشکور فرمایا ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے عملوں کو قبول فرمایا۔ ٹھہر کے معنی زدر کی سخت سردی۔ (1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 456 ج 6۔ ) (1 ؎ صحیح مسلم باب اثبات الشفاعۃ واحخراج الموحدین من النار ص 106 ج 1۔ ) (2 ؎ جامع ترمذی باب ماجاء مالامدنیٰ اھل الجنۃ من الکرامۃ ص 93 ج 2۔ ) (3 ؎ اترغیب والترہیب فصل فیما الادنیٰ اھل الجنۃ ص 944 ج 4۔ ) (4 ؎ صحیح بخاری باب صفۃ الجنۃ والنار ص 972 ج 2۔ )
Top