Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anfaal : 21
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ هُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ
وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجاؤ كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح جو قَالُوْا : انہوں نے کہا سَمِعْنَا : ہم نے سنا وَهُمْ : حالانکہ وہ لَا يَسْمَعُوْنَ : وہ نہیں سنتے
اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کہتے ہیں کہ ہم نے (حکم خدا) سن لیا مگز (حقیقت میں) نہیں سنتے۔
21۔ 23۔ اللہ پاک نے اس سے پہلے کی آیت میں مومنوں کو خطاب کر کے یہ فرمایا تھا کہ تم ہر ایک امر میں خدا اور اس کے رسول کی تابعداری کرتے رہو اور ہر باب میں ان کے حکم سے پیٹھ نہ پھیرو کیونکہ تم قرآن کی پند و نصیحت کی باتیں اور سمجھتے ہو اور اس کی تصدیق کرتے ہو اس کے بعد اس آیت میں یہ بیان فرمایا کہ ان لوگوں کی خصلت نہ اختیار کرو جو زبان سے کہتے ہیں کہ ہم سنتے میں اور حقیقت یہ ہے کہ سنتے نہیں ہیں کیونکہ سننے کا نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ اس سے کچھ نفع بھی حاصل ہو یہ منافقین یا مشرکین خدا کا کلام صرف کانوں سے سنتے ہیں مگر اس سے کوئی نفع نہیں اٹھاتے اس لئے ان کا سننا اور نہ سننا دونوں برابر ہیں پھر اللہ پاک نے یہ بیان فرمایا کہ یہ لوگ چار پایوں سے بھی بدتر بالکل بہرے گونگے ہیں کچھ سمجھ ہی نہیں رکھتے ان سے تو جانور بھی اچھے ہیں کہ وہ اپنے فرض منصبی کو ادا کرتے ہیں جو جس کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس امر میں وہ خدا کا مطیع ہے انسان ہیں جو اللہ کی عبادت کے لئے بنائے گئے مگر انہوں نے اس سے انکار کیا اس لئے یہ چوپایوں سے بدتر ٹھہرے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا قول ہے کہ یہ لوگ منجملہ قریش کے عبدالدار بن قصی کے قبیلہ کے چند لوگ تھے جو کہتے تھے کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ جو شریعت لائے ہیں اس سے بہرے گونگے ہیں یہ لوگ سب کے سب سوائے دو شخصوں کے جنگ احد میں مارے گئے ان میں سے دو شخص بچے تھے مصعب بن عمیر اور سوبیط بن حرملہ یہ دونوں مسلمان ہوئے پھر اللہ پاک نے اپنے علم ازلی کے موافق ان کے سننے میں بھلائی اور بہتری دیکھتے تو ان کو اس کے سننے کی توفیق دے دیتے لیکن اللہ کے علم ازلی کے موافق یہ نتیجہ قرار پا چکا ہے کہ اگر بالفرض انہیں سننے اور سمجھنے کی توفیق بھی دے دی جائے تو بھی یہ لوگ نہیں سنیں گے بلکہ نصیحت سے پیٹھ پھیرنے لگیں گے اور اس سننے سے کوئی نفع نہیں اٹھائیں گے اور عناد اور کفر کی وجہ سے نصیحت کے نفع سے پہلو تہی کریں گے بعضے مفسروں نے یہاں یہ بیان کیا ہے کہ قبیلہ عبدالدار کے لوگ جن کا ذکر ابھی ہوچکا کہ وہ حضرت کا کالام سننے کے وقت یہ کہتے تھے ہم بہرے گونگے ہیں یہ لوگ آنحضرت صلعم سے کہا کرتے تھے کہ ہمارے باپ قصی کو آپ زندہ کردیں تاکہ ہم اس سے دریافت کرلیں اگر وہ آپ کی رسالت کے متعلق گواہی دیگا تو ہم آپ پر ایمان لائیں گے اسی کے جواب میں اللہ پاک نے فرمایا کہ اگر ان لوگوں کو اقصی کی باتیں بھی سنادی جاویں تو بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے اور نصیحت کے سننے سے پیٹھ پھیرلیں گے اور دلی کفر کو وجہ سے ایمان لانے سے انکار ہی کریں گے صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ ؓ بن عمربن الع اس کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا دنیا کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے اپنے علم ازلی کے نتیجہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے وہ سب لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے جو دنیا کے پیدا ہونے کے بعد دنیا میں ہونے والا تھا صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوسعید خدری ؓ کی حدیث بھی گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے بڑے لوگوں کی مثال بری زمین کی اور قرآن شریف کی مثال مینہ کی فرمائی ہے۔ ان حدیثوں کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیتوں اور حدیثوں کے ملانے سے یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے علم آلہی میں جو لوگ برے ٹھہر چکے ہیں ان کے دل میں اسی طرح قرآن کی نصیحت کچھ اثر نہیں کرتی جس طرح بری زمین میں مینہ کا پانی کچھ اثر نہیں کرتا اسی واسطے وہ بہروں کی طرح قرآن کی نصیحت نہیں سنتے اور گونگوں کی طرح حق بات کا اقرار زبان پر نہیں لاسکتے اسی واسطے ایمان داروں کو ایسے لوگوں کی عادتوں سے ہمیشہ بچنا چاہئے۔
Top