Maarif-ul-Quran - Ibrahim : 37
وَ اتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَآصَّةً١ۚ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
وَاتَّقُوْا : اور ڈرو تم فِتْنَةً : وہ فتنہ لَّا تُصِيْبَنَّ : نہ پہنچے گا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو ظَلَمُوْا : انہوں نے ظلم کیا مِنْكُمْ : تم میں سے خَآصَّةً : خاص طور پر وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : شدید الْعِقَابِ : عذاب
اے رب میں نے بسایا ہے اپنی ایک اولاد کو میدان میں کہ جہاں کھیتی نہیں تیرے محترم گھر کے پاس، اے رب ہمارے تاکہ قائم رکھیں نماز کو سو رکھ بعضے لوگوں کے دل کہ مائل ہوں ان کی طرف اور روزی دے ان کو میووں سے شاید وہ شکر کریں
تیسری آیت میں حضرت ابراہیم ؑ کی ایک اور حکیمانہ دعا اس طرح مذکور ہے کہ (آیت) رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ الخ۔ الآیۃ اے میرے پروردگار ! میں نے اپنی کچھ ذریت یعنی اہل و عیال کو ایک ایسے دامن کوہ میں ٹھہرا دیا ہے جس میں کوئی کھیتی وغیرہ نہیں ہو سکتی (اور بظاہر وہاں زندگی کا کوئی سامان نہیں) یہ دامن کوہ آپ کے عظمت والے گھر کے پاس ہے تاکہ یہ لوگ نماز قائم کریں اس لئے آپ کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کردیں کہ ان کے انس اور آبادی کا سامان ہوجائے اور ان کو ثمرات (پھل) عطا فرمائیے تاکہ یہ لوگ شکر گذار ہوں۔
حضرت خلیل اللہ (علیہ الصلوۃ والسلام) کی اس دعاء کا واقعہ یہ ہے کہ بیت اللہ شریف کی تعمیر جو طوفان نوح میں بےنشان ہوگئی تھی جب اللہ تعالیٰ نے اس کی دوبارہ تعمیر کا ارادہ فرمایا تو اپنے خلیل ابراہیم ؑ کو اس کے لئے منتخب فرما کر ان کو ملک شام سے ہجرت کر کے حضرت ہاجرہ اور صاحبزادے اسماعیل ؑ کے ساتھ اس بےآب وگیاہ مقام مسکن بنانے کے لئے مامور فرمایا۔
صحیح بخاری میں ہے کہ اسماعیل اس وقت شیر خوار بچے تھے حضرت ابراہیم ؑ نے حسب حکم ان کو اور ان کی والدہ ہاجرہ کو موجودہ بیت اللہ اور چاہ زمزم کے قریب ٹھہرا دیا اس وقت یہ جگہ پہاڑوں سے گھری ہوئی ایک چٹیل میدان تھی دور دور تک نہ پانی نہ آبادی، ابراہیم ؑ نے ان کے لئے ایک توشہ دان میں کچھ کھانا اور ایک مشکیزہ میں پانی رکھ دیا تھا۔
اس کے بعد حضرت ابراہیم ؑ کو ملک شام کی طرف واپس ہونے کا حکم ملا جس جگہ حکم ملا تھا وہیں سے تعمیل حکم کے لئے روانہ ہوگئے بیوی اور شیرخوار بچہ کو اس لق ودق جنگل میں چھوڑنے کا جو طبعی اور فطری اثر تھا اس کا اظہار تو اس دعاء سے ہوگا جو بعد میں کی گئی مگر حکم ربانی کی تعمیل میں اتنی دیر بھی گوارا نہیں فرمائی کہ حضرت ہاجرہ کو خبر دیدیں اور کچھ تسلی کے الفاظ کہہ دیں۔
نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت ہاجرہ نے ان کو جاتے ہوئے دیکھا تو بار بار آوازیں دیں کہ اس جنگل میں آپ ہمیں کس پر چھوڑ کر جا رہے ہیں جہاں نہ کوئی انسان ہے نہ زندگی کا سامان مگر خلیل اللہ نے مڑ کر نہیں دیکھا تب حضرت ہاجرہ کو خیال آیا کہ اللہ کا خلیل ایسی بےوفائی نہیں کرسکتا شاید اللہ تعالیٰ ہی کا حکم ملا ہے تو آواز دے کر پوچھا کہ کیا آپ کو اللہ تعالیٰ نے یہاں سے چلے جانے کا حکم دیا ہے تب حضرت ابراہیم ؑ نے مڑ کر جواب دیا کہ ہاں حضرت ہاجرہ نے یہ سن کر فرمایا اذا لایضیعنا یعنی اب کوئی پرواہ نہیں جس مالک نے آپ کو یہاں سے چلے جانے کا حکم دیا ہے وہ ہمیں بھی ضائع نہ کرے گا۔
حضرت ابراہیم ؑ آگے بڑہتے رہے یہاں تک کہ ایک پہاڑی کے پیچھے پہنچ گئے جہاں ہاجرہ و اسماعیل (علیہما السلام) آنکھوں سے اوجھل ہوگئے تو اس وقت بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو کر یہ دعاء مانگی جو اس آیت میں مذکور ہے حضرت ابراہیم ؑ کی مذکورہ دعاء کے ضمن میں بہت سی ہدایات اور مسائل ہیں ان کا بیان یہ ہے۔
دعاء ابراہیمی کے اسرار و حکم
(1) حضرت ابراہیم ؑ نے ایک طرف تو مقام خلیل اللہ کا حق ادا کیا کہ جس وقت اور جس جگہ ان کو یہ حکم ملا کہ آپ ملک شام واپس چلے جائیں، اس بےآب وگیاہ لق ودق میدان میں اہلیہ اور شیر خوار بچے کو چھوڑ کر چلے جانے اور حکم ربانی کی تعمیل میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں فرمائی، اس کی تعمیل میں اتنی دیر لگانا بھی گوارا نہیں فرمایا کہ اہلیہ محترمہ کے پاس جا کر تسلی کردیں اور کہہ دیں کہ مجھے یہ حکم ملا ہے آپ گھبرائیں نہیں بلکہ جس وقت جس جگہ حکم ملا فورا حکم ربانی کی تعمیل کے لئے چل کھڑے ہوئے،
دوسری طرف اہل و عیال کے حقوق اور ان کی محبت کا یہ حق ادا کیا کہ پہاڑی کے پیچھے ان سے اوجھل ہوتے ہی حق تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کی حفاظت اور امن و اطمینان کے ساتھ رہنے کی دعاء فرمائی ان کی راحت کا سامان کردیا کیونکہ وہ اپنی جگہ مطمئن تھے کہ تعمیل حکم کے ساتھ جو دعاء کی جائے گی بارگاہ کریم سے وہ ہرگز رد نہ ہوگی اور ایسا ہی ہوا کہ یہ بیکس و بےبس عورت اور بچہ نہ صرف خود آباد ہوئے بلکہ ان کے طفیل میں ایک شہر آباد ہوگیا اور نہ صرف یہ کہ ان کو ضروریات زندگی اطمینان کے ساتھ نصیب ہوئیں بلکہ ان کے طفیل میں آج تک اہل مکہ پر ہر طرح کی نعمتوں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں
یہ ہے پیغمبرانہ استقامت اور حسن انتظام کہ ایک پہلو کی رعایت کے وقت دوسرا پہلو کبھی نظر انداز نہیں ہوتا وہ عام صوفیائے کرام کی طرح مغلوب الحال نہیں ہوتے اور یہی وہ تعلیم ہے جس کے ذریعہ ایک انسان انسان کامل بنتا ہے۔
(2) غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ حضرت ابراہیم ؑ کو جب حق تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ملا کہ شیر خوار بچے اور اس کی والدہ کو اس خشک میدان میں چھوڑ کر ملک شام چلے جائیں تو اسی حکم سے اتنا تو یقین ہوچکا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کو ضائع نہ فرماویں گے بلکہ ان کے لئے پانی ضرور مہیا کیا جائے گا اس لئے بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ مَاءٍ نہیں کہا بلکہ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ فرما کر درخواست یہ کی کہ ان کو پھل اور ثمرات عطا ہوں خواہ کسی دوسری جگہ ہی سے لائے جائیں یہی وجہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں آج تک بھی کاشت کو کوئی خاص انتظام نہیں مگر دنیا بھر کے پھل اور ہر چیز کے ثمرات وہاں اتنے پہنچتے ہیں کہ دوسرے بہت سے شہروں میں ان کا ملنا مشکل ہے (بحرمحیط)
(3) عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ سے ثابت ہوا کہ بیت اللہ شریف کی بناء حضرت ابراہیم ؑ سے پہلے ہوچکی تھی جیسا کہ امام قرطبی نے تفسیر سورة بقرہ میں متعدد روایات سے ثابت کیا ہے کہ سب سے پہلے بیت اللہ کی تعمیر آدم ؑ نے کی ہے جب ان کو زمین پر اتارا گیا تو بطور معجزہ جبل سرا اندیپ سے اس جگہ تک ان کو پہونچایا گیا اور جبرئیل امین نے بیت اللہ کی جگہ کی نشاندہی بھی کی اس کے مطابق حضرت آدم ؑ نے اس کی تعمیر کی وہ خود اور ان کی اولاد اس کے گرد طواف کرتے تھے یہاں تک کہ طوفان نوح میں بیت اللہ کو اٹھا لیا گیا اور اس کی بنیادیں زمین میں موجود رہیں حضرت ابراہیم ؑ کو انہی بنیادوں پر بیت اللہ کی نئی تعمیر کا حکم ملا حضرت جبریل امین نے قدیم بنیادوں کی نشان دہی کی پھر یہ بناء ابراہیمی عہد جاہلیت عرب میں منہدم ہوگئی تو قریش جاہلیت نے از سرنو تعمیر کی جس کی تعمیر میں ابو طالب کے ساتھ رسول کریم ﷺ نے بھی نبوت سے پہلے حصہ لیا
اس میں بیت اللہ کی صفت محرم ذکر کی گئی ہے محرم کے معنی معزز کے بھی ہو سکتے ہیں اور محفوظ کے بھی بیت اللہ شریف میں یہ دونوں صفتیں موجود ہیں کہ ہمیشہ معزز اور مکرم رہا ہے اور ہمیشہ دشمنوں سے محفوظ بھی رہا ہے،
(4) لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ حضرت خلیل نے شروع دعاء میں اپنے بچے اور اس کی والدہ کی بےبسی اور خستہ حالی ذکر کرنے بعد سب سے پہلے جو دعا کی وہ یہ کہ ان کو نماز کا پابند بنا دے کیونکہ نماز دنیا و آخرت کی تمام خیرات و برکات کے لئے جامع ہے اس سے معلوم ہوا کہ اولاد کے حق میں اس سے بڑی کوئی ہمدردی اور خیر نہیں کہ ان کو نماز نہیں کہ ان کو نماز کا پابند بنادیا جائے اور اگرچہ وہاں اس وقت صرف ایک عورت اور بچہ کو چھوڑا تھا مگر دعاء میں صیغہ جمع کا استعمال فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ حضرت خلییل ؑ کو یہ معلوم ہوچکا تھا کہ یہاں شہر آباد ہوگا اور اس بچہ کی نسل چلے گی اس لئے دعاء میں ان سب کو شریک کرلیا۔
(5) اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ۔ افئدہ فواد کی مجمع ہے جس کے معنی دل کے ہیں اس جگہ لفظ افئدہ کو نکرہ اور اسکے ساتھ حرف من لایا گیا جو تبعیض اور تقلیل کے لئے آتا ہے اس لئے معنی یہ ہوئے کہ کچھ لوگوں کے قلوب ان کی طرف مائل کر دیجئے امام تفسیر حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ اگر اس دعاء میں یہ حرف تبعیض و تقلیل نہ ہوتا بلکہ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاس کہہ دیا جاتا تو ساری دنیا کے مسلم وغیر مسلم یہود و نصاری اور مشرق و مغرب کے سب آدمی مکہ پر ٹوٹ پڑتے جو ان کے لئے باعث زحمت ہوجاتا اس حقیقت کے پیش نظر حضرت ابراہیم ؑ نے دعاء میں یہ الفاظ فرمائے کہ کچھ لوگوں کے قلوب ان کی طرف مائل کر دیجئے۔
(6) وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ ثمرات، ثمرۃ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں پھل اور عادۃ ان پھلوں کو کہا جاتا ہے جو کھائے جاتے ہیں اس اعتبار سے دعاء کا حاصل یہ ہوگا کہ ان لوگوں کو کھانے کے لئے ہر طرح کے پھل عطا فرمائیے۔
اور کبھی لفظ ثمرہ نتیجہ اور پیداوار کے معنی میں بھی آتا ہے جو کھانے کی چیزوں سے زیادہ عام ہے ہر نفع آور چیز کے نتیجہ اور حاصل کو اس کا ثمرہ کہا جاسکتا ہے مشینوں اور صنعتی کارخانوں کے ثمرات ان کی مصنوعات کہلائیں گی ملازمت اور مزدوری کا ثمرہ وہ اجرت اور تنخواہ کہلائیگی جو اس کے نتیجہ میں حاصل ہوئی قرآن کریم کی ایک آیت میں اس دعاء میں ثَمَرٰتِ کَلِ شَیءٍ کا لفظ بھی آیا ہے اس میں لفظ شجر کے بجائے لفظ شیء لایا گیا ہے جس سے اس طرف اشارہ ہوسکتا ہے کہ حضرت خلیل اللہ ؑ نے ان لوگوں کے لئے صرف کھانے کے پھلوں ہی کی دعاء نہیں فرمائی، بلکہ ہر چیز کے ثمرات اور حاصل شدہ نتائج کی دعاء مانگی ہے جس میں دنیا بھر کی مصنوعات اور ہر طرح کی قابل انتفاع چیزیں سب داخل ہیں شاید اس دعا کا یہ اثر ہے کہ مکہ مکرمہ باوجودیکہ نہ کوئی زراعتی ملک ہے نہ تجارتی یا صنتعی لیکن دنیا بھر کی ساری چیزیں مشرق ومغرب سے پہنچ کر مکہ معظمہ میں آتی ہیں جو غالبا دنیا کے کسی بڑے سے بڑے شہر کی بھی نصیب نہیں
(7) حضرت خلیل اللہ ؑ نے اپنی اولاد کے لئے یہ دعاء نہیں فرمائی کہ مکہ کی زمین کو قابل کاشت بنادیں ورنہ کچھ مشکل نہ تھا کہ مکہ کی وادی اور سارے پہاڑ سر سبز کردیئے جاتے جن میں باغات اور کھیت ہوتے مگر خلیل اللہ ؑ نے اپنی اولاد کے لئے یہ زراعت کا مشغلہ پسند نہ کیا اس لئے دعاء فرمائی کہ کچھ لوگوں کے قلوب ان کی طرف مائل کردیئے جائیں جو مشرق ومغرب اور اطراف عالم سے یہاں آیا کریں ان کا یہ اجتماع پوری دنیا کے لئے رشد و ہدایت کا اور اہل مکہ کی خوش حالی کا ذریعہ بنے اطراف عالم کی چیزیں بھی یہاں پہنچ جائیں اور اہل مکہ کو کسب مال کے ذرائع بھی ہاتھ آجائیں اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی اور آج تک اہل مکہ زراعت اور کاشت سے بےنیاز ہو کر تمام ضروریات زندگی سے مالا مال ہیں
(8) لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ میں اشارہ کردیا کہ اولاد کے لئے معاشی راحت و سکون کی دعاء بھی اسی لئے کی گئی کہ یہ شکر گذار بن کر اس پر بھی اجر حاصل کریں اس طرح دعاء کی ابتدا نماز کی پابندی سے ہوئی اور انتہا شکر گذاری پر درمیان میں معاشی راحت و سکون کا ذکر آیا اس میں یہ تعلیم ہے کہ مسلمان کو ایسا ہی ہونا چاہئے کہ اس کے اعمال و احوال خیالات و افکار پر آخرت کی فلاح کا غلبہ ہو اور دنیا کا کام بقدر ضرورت ہو۔
Top