Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anfaal : 31
وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَآءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَاۤ١ۙ اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ
وَاِذَا : اور جب تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْهِمْ : ان پر اٰيٰتُنَا : ہماری آیات قَالُوْا : وہ کہتے ہیں قَدْ سَمِعْنَا : البتہ ہم نے سن لیا لَوْ نَشَآءُ : اگر ہم چاہیں لَقُلْنَا : کہ ہم کہہ لیں مِثْلَ : مثل هٰذَآ : اس اِنْ : نہیں هٰذَآ : یہ اِلَّآ : مگر (صرف) اَسَاطِيْرُ : قصے کہانیاں الْاَوَّلِيْنَ : پہلے (اگلے)
اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں (یہ کلام) ہم نے سن لیا ہے۔ اگر ہم چاہیں تو اسی طرح کا (کلام) ہم بھی کہہ دیں۔ اور یہ ہے ہی کیا ؟ صرف اگلے لوگوں کی حکایتیں ہیں۔
31۔ 32۔ ایک شخص مشرکین مکہ میں نضر بن حارث تھا اس کو بدر کی لڑائی میں مقداد صحابی نے پکڑا تھا اور باوجود اس کے کہ بدر کے اور قیدی فدیہ لے کر چھوڑ دیے گئے مگر نضر بن حارث کو ایسی وجہ سے آنحضرت نے قتل کیا کہ وہ قرآن شریف کی شان میں ناشائستہ اور سخت الفاظ کہا کرتا تھا مجوس کے ملک کا سفر اس نضربن حارث نے اکثر کیا تھا اور رستم واسفند یار وغیرہ کی داستانیں اس کو خوب یاد تھیں۔ قرآن کے مقابلہ میں مشرکین کو وہ داستانیں سنایا کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ کہو میرے قصے اچھے ہیں یا محمد ﷺ کے اور کہتا تھا چاہوں تو میں ایسا قرآن بنا سکتا ہوں اس کی شان میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی آگے کی آیت میں پتھر برسنے اور عذاب کے آنے کی خواہش کا جو ذکر ہے صحیح بخاری ومسلم میں انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ یہ خواہش ابوجہل نے کی تھی اور تفسیر ابن ابی حاتم میں سعید بن جبیر کی روایت ہے اس سے معلوم ہوتا کہ یہ خواہش بھی نضر بن حارث ہی نے کی تھی اس تفسیر کے مقدمہ میں یہ گذر چکا ہے کہ ابن ابی حاتم نے صحت روایت کا زیادہ خیال رکھا ہے اس واسطے یہی قول صحیح معلوم ہوتا ہے کہ یہ خواہش ابوجہل اور نضر بن حارث دونوں شخص نے کی تھی ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کی کم عقلی جتلائی ہے کہ وہ قرآن جس میں ایک آیت بھی بنا کر یہ لوگ نہیں پیش کرسکے پھر باوجود اس کے قرآن کی شان میں ایسی کم عقلی کی باتیں ان میں کے بعضے لوگ منہ سے نکالتے تھے اور قوم کے باقی لوگ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے یہ ان لوگوں کی بڑی بےعقلی ہے۔ صحیح مسلم ابوداؤد وغیرہ میں جابر ؓ بن عبداللہ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے ہر شخص کو اس طرح کی بددعا سے منع فرمایا ہے اس حدیث کو آخر آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیث کے ملانے سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ جس طرح کی بددعا ابوجہل اور نضر بن حارث نے کی تھی اس طرح کی بددعا مسلمان شخص کو کسی حال میں جائز نہیں ہے :۔
Top