Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anfaal : 33
وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُعَذِّبَهُمْ : کہ انہیں عذاب دے وَاَنْتَ : جبکہ آپ فِيْهِمْ : ان میں وَمَا : اور نہیں كَانَ : ہے اللّٰهُ : اللہ مُعَذِّبَهُمْ : انہیں عذاب دینے والا وَهُمْ : جبکہ وہ يَسْتَغْفِرُوْنَ : بخشش مانگتے ہوں
اور خدا ایسا نہ تھا کہ جن تک تم ان میں تھے انہیں عذاب دیتا۔ اور نہ ایسا تھا کہ وہ بخش مانگیں اور انہیں عذاب دے۔
33۔ ابوجہل اور نضر بن حارث نے جب یہ دعا مانگی کہ یا اللہ یہ دین جس کی طرف محمد ﷺ ہم کو مائل کرنا چاہتے ہیں اگر حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اب تک تو تم لوگوں پر کب کا عذاب نازل ہوچکا ہوتا لیکن دوسبب سے تم پر عذاب نہیں آیا ہجرت سے پہلے تو نبی وقت تم میں تھے اور ان کے سبب سے ایک دو مسلمان ہوتے رہتے تھے نبی کی ہجرت کے بعد ضعیف لوگ جو ہجرت نہیں کرسکے وہ مکہ میں تھے جو ہمیشہ اللہ سے مغفرت کی دعا کرتے رہتے تھے صلح حدیبیہ کے بعدرفتہ رفتہ وہ لوگ بھی مکہ سے نکل آئے اب تم پر عذاب آیا بدر میں ستر بڑے بڑے سردار مارے گئے آخر خود مکہ فتح ہوگیا بعضے مفسروں نے کہا ہے کہ خود مشرکین مکہ معافی کے وقت غفرانک کہہ کر مغفرت چاہا کرتے تھے اور اسی سبب سے ان مفسروں نے تھوڑے دن عذاب کے روکنے کا حکم اس آیت سے ٹھہرا کر پھر آئندہ کی آیت سے اس آیت کو منسوخ کہا ہے لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ قرآن کی تفسیر خود قرآن سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی سورة انافتحنا کی آیت ولولا رجال مومنون اور ونساء مومنات (48: 25) میں صراحت سے اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ ہجرت کے بعد عذاب کے روکنے کا سبب ضعیف مسلمان تھے ترمذی میں حضرت ابوموسیٰ ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت نے فرمایا ہے کہ نبی کے ہونے تک نبی کا موجود ہونا اور نبی کے بعد لوگوں کا استغفار کرنا عذاب الٰہی سے بچنے کے یہ دو سبب ہیں اس حدیث سے بھی اسی تفسیر کی تائید ہوتی ہے جس کو اوپر قول صحیح قرار دیا ہے ترمذی کی سند میں اگرچہ ایک راوی اسمعیل بن ابراہیم بن مہاجر ضعیف ہے لیکن صحیح بخاری ومسلم میں عبداللہ ؓ بن مسعود کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو اپنے ایمان دار بندہ کی توبہ و استغفار سے بڑی خوشی ہوتی ہے اس صحیح حدیث سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی روایت کو تقویت ہوجاتی ہے اور صحیح تفسیر یہی قرار پاتی ہے کہ آیت میں ضعیف مسلمانوں کی توبہ استغفار سے عذاب الہی ٹل سکتا ہے :۔
Top