Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anfaal : 35
وَ مَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُكَآءً وَّ تَصْدِیَةً١ؕ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ
وَمَا : اور نہیں كَانَ : تھی صَلَاتُهُمْ : ان کی نماز عِنْدَ : نزدیک الْبَيْتِ : خانہ کعبہ اِلَّا : مگر مُكَآءً : سیٹیاں وَّتَصْدِيَةً : اور تالیاں فَذُوْقُوا : پس چکھو الْعَذَابَ : عذاب بِمَا : اس کے بدلے جو كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے تھے
اور ان لوگوں کی نماز خانہ کعبہ کے پاس سٹیاں اور تالیاں بجانے سوا کچھ نہ تھی۔ تو تم جو کفر کرتے تھے اب اس کے بدلے عذاب (کا مزہ) چکھو۔
35۔ تفسیر ابن جریر تفسیر بدی اور تفسیر واحدی میں حضرت ابن عمر ؓ اور عکرمہ وغیرہ سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ مسلمانوں اور آنحضرت کو نماز پڑھتا ہوا دیکھ کر نماز میں خیال بٹانے کی غرض سے ٹھٹے کے طور پر مشرکین سیٹیاں اور تالیاں بجاتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اس سے معلوم ہوا کہ ٹھٹھے کے طور پر نیک کام میں ہرج ڈالنا چھوٹی بات نہیں بڑا سخت گناہ ہے حاصل مطلب یہ ہے کہ مشرکین مکہ اپنے آپ کو کعبہ کا متولی جو ٹھہراتے تھے اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ کعبہ نماز اور طواف کے لئے ہے طواف میں تو یہ لوگ اللہ کے نام کے ساتھ بتوں کا نام لیتے ہیں اور خود تو نماز کے قائل نہیں اللہ کے رسول اور ان کے ساتھی اللہ کے گھر میں اللہ کی عبادت کرتے ہیں تو ان کا خیال بٹانے کے لئے سیٹیاں اور تالیاں بجاتے ہیں پھر بھلا ایسے لوگ کیونکر کعبہ کے متولی ٹھہر سکتے ہیں غرض مشرکین مکہ کے کفر اور ان کی شرارتوں کے ذکر کے بعد آیت کے آخری ٹکڑے میں ان کی سزا کا ذکر فرمایا کہ ان لوگوں نے اپنے کفر اور اپنی سرکشی کے سبب سے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ اس کفر اور سرکشی کا نتجیہ یہ ہوا کہ اس کی سزا میں انہی لوگوں کو دنیا اور عقبے کا عذاب بھگتنا پڑیگا دنیا کا عذاب تو یہ ہوا کہ بدر کی لڑائی میں یہ شریر لوگ بڑی ذلت سے مارے گئے پھر ان کی لاشیں بےگور و کفن پڑی رہیں عقبے کے عذاب کا یہ حال ہے کہ مرتے ہی عقبیٰ کے عذاب میں گرفتار ہوگئے اسی واسطے ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اپنے کفر اور شرارتوں کی سز آنکھوں سے دیکھ لی اور عذاب آلہی کے وعدہ کو سچاپالیا صحیح بخاری ومسلم میں انس بن مالک ؓ کی جو روایتیں ہیں ان میں ان لوگوں کی لاشوں کے پڑے رہنے کی اور اللہ کے رسول کے ان لاشوں پر کھڑے ہو کر عذاب الہی یاد دلانے کی پوری تفصیل ہے اور وہی روایتیں آیت کے آخری ٹکڑے کی گویا تفسیر ہیں :۔
Top