Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anfaal : 47
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بَطَرًا وَّ رِئَآءَ النَّاسِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ
وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجانا كَالَّذِيْنَ : ان کی طرح جو خَرَجُوْا : نکلے مِنْ : سے دِيَارِهِمْ : اپنے گھروں بَطَرًا : اتراتے وَّرِئَآءَ : اور دکھاوا النَّاسِ : لوگ وَيَصُدُّوْنَ : اور روکتے عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا : سے۔ جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں مُحِيْطٌ : احاطہ کیے ہوئے
اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو اتراتے ہوئے (یعنی حق کا مقابلہ کرنے کے لئے) اور لوگوں کو دکھانے کے لئے گھروں سے نکل آئے اور لوگوں کو خدا کی راہ سے روکتے ہیں۔ اور جو اعمال یہ کرتے ہیں خدا ان پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔
47۔ تفسیر ابن جریر تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں جو شان نزول اس آیت کی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ بدر کی لڑائی کے دن شام کی طرف سے قافلہ جو مشرکین مکہ کی تجارت کا مال لارہا تھا جب وہ قافلہ مسلمانوں کے ہاتھ سے بچ گیا تو ابوسفیان نے ابوجہل سے کہا تھا کہ تم لوگ مکہ سے اپنے قافلہ کی مدد کو آئے تھے اب قافلہ تو بچ گیا چلو مکہ کو واپس چلنا چاہئے ابوجہل نے کہا نہیں تین روز بدر میں ٹھہریں گے اور شراب پیویں گے اور کئی کئی اونٹ روز ذبح کریں گے اور گانے والی چھوکریاں جو ہمارے ساتھ ہیں ان کا گانا سنیں گے جس سے لوگوں پر ذرا ہمارا رعب پڑیگا چناچہ اس کے موافق بدر پر مقام ہوا اور نتیجہ اس شیخی مارنے اور اترانے کا یہ ہوا کہ بجائے شراب کے جام کے جام مرگ ستر آدمیوں کے ساتھ ابوجہل کو پینا پڑا اور بجائے گانے کے ہر طرف نوحہ کی آواز بلند ہوئی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور مسلمانوں کو اس طرح کے اترانے سے منع فرمایا صحیح بخاری ومسلم وغیرہ میں عبداللہ بن عمر ؓ ابوہریرہ ؓ کی روایتیں ہیں جن میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا انسان کا اترانا اللہ تعالیٰ کو اس قدر ناپسند ہے کہ پچھلی امتوں میں کے بعضے اترانے والے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے زمین میں دھنسا دیا آیت میں اترانے کی جو ممانعت ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود ؓ کی حدیث گذر چکی ہے کہ ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے آنحضرت ﷺ کو مکہ میں نماز پڑھتا ہوا دیکھ کر آپ کی پیٹھ پر اوجھڑی ڈال دی تھی یہ حدیث اور اس قسم کی بہت سی حدیثیں ویصدون عن سبیل اللہ کی تفسیر ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین مکہ طرح طرح سے اللہ کے رسول اور مسلمانوں کو اللہ کے راستہ سے روکتے تھے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبد اللہ ؓ بن عمرو بن العاص کی حدیث گذر چکی ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اپنے علم ازلی کے نتیجہ کے طور پر وہ سب اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے اس حدیث سے واللہ بمایعلون محیط کی تفسیر اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے :۔
Top