Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anfaal : 49
اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ غَرَّ هٰۤؤُلَآءِ دِیْنُهُمْ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
اِذْ : جب يَقُوْلُ : کہنے لگے الْمُنٰفِقُوْنَ : منافق (جمع) وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو کہ فِيْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : مرض غَرَّ : مغرور کردیا ھٰٓؤُلَآءِ : انہیں دِيْنُهُمْ : ان کا دین وَمَنْ : اور جو يَّتَوَكَّلْ : بھروسہ کرے عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اس وقت منافق اور (کافر) جن کے دلوں میں مرض تھا کہتے تھے کہ ان لوگوں کو ان کے دین نے مغرور کر رکھا ہے اور جو شخص خدا پر بھروسہ رکھتا ہے تو خدا غالب حکمت والا ہے۔
49۔ تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا قول ہے کہ جب مسلمانوں کی فوج کفار کی فوج سے قریب ہوئی اور اللہ پاک نے مسلمان کو کفار کی نظر میں اور کفار کو مسلمانوں کی نظر میں تھوڑا دکھلا دیا تو مشرک کہنے لگے کہ یہ مسلمان اپنے دین پر مغرور ہو کر باوجود اس تھوڑی سی تعداد کے لڑنے آئے ہیں اس پر اللہ پاک نے فرمایا کہ اس کمی اور بیشی پر نہ جاؤ خدا پر جو بھروسہ کرتا ہے اسے سرخروئی ہوتی ہے خدا بڑا زبردست اور حکمت والا ہے ابوجہل نے آنحضرت ﷺ اور آپ کے اصحاب کو تھوڑا دیکھ کر سرکشی کی راہ سے بات بھی کہی تھی کہ آج تک تو خیر مگر آج کے بعد پھر کبھی اللہ کی عبادت خالص نہ کی جائے گی کیونکہ وہ مشرک یہ سمجھے ہوئے تھے کہ ہم غالب ہوں گے اور مسلمان پسپا ہوں گے پھر کوئی نہ خالص آپ پر ایمان لاویگا نہ خالص عبادت ہوگی زمین پر۔ تفسیر کلبی اور تفسیر ابن ابی حاتم میں یہ بھی ہے کہ مکہ میں کچھ لوگ تھے جو ظاہر میں اسلام لائے تھے مگر ان کا اسلام پکا نہ تھا یہ لوگ بھی ابوجہل کے ساتھ لڑائی کو آئے تھے اور مسلمانوں کی قلت دیکھ کر کہنے لگے یہ لوگ اپنے دین پر مغرور ہو کر باوجود اس قلت کے لڑائی میں پیش قدمی کر کے آئے ہیں ان باتوں کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ یہ ایمان دار لوگ مغرور نہیں ہیں بلکہ اللہ کی ذات پر بھروسہ کر کے یہ لوگ لڑائی میں اس طرح کی پیش قدمی کر رہے ہیں حاصل کلام یہ ہے کہ لڑائی کے شروع ہونے سے پہلے ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے بہت سی باتیں مغرور اپنے اور اترانے کی منہ سے نکالیں صحیح بخاری اور مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمر ؓ اور ابوہریرہ ؓ کی روایتیں اوپر گذر چکی ہیں کہ انسان کا اترانا اللہ کو بہت پسند ہے اور آیت ان اللہ مع الصبرین کی تفسیر میں صحیح بخاری اور مسلم کے حوالہ سے سعید خدری ؓ کی حدیث کا یہ مطلب بھی گذر چکا ہے کہ صبر و تحمل کو کام میں لاکر جو شخص اپنی کسی سختی کی کشایش کا بھروسہ اللہ پر کریگا اور اپنی اس کشایش کو اللہ کی مرضی پر منحصر رکھے گا تو اس سے بڑھ کر کوئی اچھی چیز دنیا میں آدمی کے لئے نہیں ہے ان حدیثوں کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیثوں کو ملا کر یہ مطلب ہوا کہ مشرکین مکہ نے لڑائی کے شروع ہونے سے پہلے غرو پنے اور اترانے کی باتیں جو منہ سے نکالی تھیں ان کی وہ باتیں اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہوئیں اس واسطے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے غرور کو یوں ڈھایا کہ اس لڑائی میں ان کو بڑی بھاری شکست ہوئی اور مسلمانوں نے اپنی لڑائی کا انجام اللہ کو سونپا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے طرح طرح سے ان کی مدد فرمائی جس کے سبب سے ان کو بہت بڑی فتح نصیب ہوئی اور دین اور دنیا میں ان کی عزت اور آبرو بڑھی مسند امام احمد میں جابر ؓ گی صحیح حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا بدر کی لڑائی میں جتنے صحابہ ؓ موجود تھے قیامت کے دن ان میں سے کوئی شخص دوزخ میں نہ جاویگا صحیح بخاری میں رفاعہ بن را ؓ فع کی حدیث ہے جس میں جبرائیل (علیہ السلام) نے آنحضرت ﷺ سے کہا کہ جس طرح بدری صحابہ کو زمین پر عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے آسمان پر اسی طرح ان فرشتوں کا حال ہے جو بدر کی لڑائی میں لشکر اسلام کی مدد کو آئے تھے یہ حدیثیں اور اسی قسم کی اور حدیثیں میں جن سے بدری صحابہ کی دین و دنیا کی عزت اور آبرو کا حال معلوم ہوتا ہے۔
Top