Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anfaal : 53
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ یَكُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰى قَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ١ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّ : اس لیے کہ اللّٰهَ : اللہ لَمْ يَكُ : نہیں ہے مُغَيِّرًا : بدلنے والا نِّعْمَةً : کوئی نعمت اَنْعَمَهَا : اسے دی عَلٰي قَوْمٍ : کسی قوم کو حَتّٰي : جب تک يُغَيِّرُوْا : وہ بدلیں مَا : جو بِاَنْفُسِهِمْ : ان کے دلوں میں وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
یہ اس لئے کہ جو نعمت خدا کسی قوم کو دیا کرتا ہے جب تک وہ خود اپنے دلوں کی حالت نہ بدل ڈالیں خدا اسے نہیں بدلا کرتا۔ اور اس لئے کہ خدا سنتا جانتا ہے۔
53۔ 54۔ اللہ پاک نے اس آیت میں یہ فرمایا کہ ان کفار پر جو عذاب آیا جنگ بدر میں قتل و غارت ہوئے مسلمانوں کی قید میں آئے ان کے مال لوٹ لئے گئے اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی حالت خود بدل دی عمر وبن لحی نے ملت ابراہیمی کو بدل کر مکہ میں بت پرستی پھیلائی جس میں ان کے بڑے مبتلا ہوئے حال کے لوگ اپنے بڑوں کے قدم بقدم چلے اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنی بردباری سے فورا ان کو ہلاک نہیں کیا بلکہ ان کی حالت کو درست کرنے کے لئے نبی آخر الزمان کو بھیجا قرآن نازل فرمایا تفسیر سدی اور تفسیر ابن ابی حاتم میں جو روایتیں ہیں ان میں ہے کہ یہاں نعمت سے مطلب حضرت رسول مقبول ﷺ ہیں کیونکہ اللہ پاک نے یہ نعمت اہل مکہ کو دی تھی آپ کو رسول بنا کر ان لوگوں میں بھیجا تھا ان لوگوں نے آپ کی کچھ قدرنہ کی آپ کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آئے اس لئے اللہ پاک نے اپنے رسول کو مکہ سے مدینہ انصار کے پاس بھیج دیا اس کے بعد پھر اہل مکہ پر بدر کی آفت آئی اس لئے کہ اللہ پاک ہر ایک قوم کی باتوں کو سنتا ہے اور ہر شخص کے عمل کو جانتا ہے پھر بطور تاکید کے قوم فرعون اور پہلی امتوں کا حاصل بیان فرمایا انہیں کفار کی طرح فرعون اور دوسری امتوں کے پاس بھی اللہ تعالیّٰ نے رسول بھیجے اور کتابیں اتریں خیر و برکت کا دروازہ ان پر کھول دیا طرح طرح کی نعمت ان کو عطا کی مگر ان لوگوں نے اس کا شکر نہ ادا کیا بلکہ اللہ کے رسولوں اور اللہ کے کلام کو جھٹلایا اس لئے اللہ نے انہیں ہلاک کردیا کسی کو آدمی سے بندر بنا دیا کسی پر پتھر برسائے اور سب سے آخر پر فرعون کو دریا میں غرق کرکے ہلاک کیا اسی طرح ان کفار مکہ کو تلوار سے قتل کرا دیا یہ کل قومیں جو اپنے ہی کردار بد کی وجہ سے ہلاک ہوئی یہ سب کے سب ظالم تھیں اپنی جانوں پر خود انہوں نے ظلم کیا اور دوسروں پر بھی یہ ظلم کیا کہ انہیں گمراہ کردیا جس طرح عمر وبن لحی نے مکہ میں بت پرستی نکالی جس سے خود بھی گمراہ ہوا اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ کسی قوم کو جو نعمت عطا کرچکا بغیر کسی ناشکری کے اس قوم سے وہ نعمت چھین لیوے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ ؓ اشعری کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی بردبار نہیں ہے لوگ اس کی عبادت میں اوروں کو شریک ٹھہراتے ہیں اور اس کو صاحب اولاد کہتے ہیں اور وہ اپنی بردباری سے ان کی صحت عافیت اور رزق کے انتظام میں کچھ خلل نہیں ڈالتا اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیث کو ملا کر یہ مطلب ہوا کہ اگرچہ عمرو بن لحی کے زمانہ سے مشرکین مکہ نے اللہ کے گھر میں شرک پھیلا رکھا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی بردباری سے بدر کی لڑائی تک ان پر کوئی آفت نازل نہیں فرمائی ہاں جب دن بدن ان کی سرکشی بڑھتی گئی تو بدر کی لڑائی میں اللہ تعالیٰ نے ان کی سرکشی کو ڈھایا پچھلی قوموں کی ہلاکت میں فرعون اور اس کی قوم کی ہلاکت سب سے آخر ہے جس کے سبب سے عرب کے کان اس قصہ سے زیادہ آشنا تھے اس لئے پہلی آیت اور اس آیت میں اس قصہ کا ذکر تنبیہ کے طور پر دو دفعہ فرمایا۔ 1 ؎ صحیح بخاری ج 2 ص 576 باب قتل کعب بن الاشرف
Top