Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anfaal : 59
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَبَقُوْا١ؕ اِنَّهُمْ لَا یُعْجِزُوْنَ
وَلَا يَحْسَبَنَّ : اور ہرگز خیال نہ کریں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) سَبَقُوْا : وہ بھاگ نکلے اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَا يُعْجِزُوْنَ : وہ عاجز نہ کرسکیں گے
اور کافر یہ نہ خیال کریں کہ وہ بھاگ نکلے ہیں۔ وہ (اپنی چالوں سے ہم کو) ہرگز عاجز نہیں کرسکتے۔
59۔ 60۔ اللہ پاک نے اس آیت میں آنحضرت ﷺ کو یہ تسلی فرمائی کہ جنگ بدر سے جو کفار بچ کر بھاگ نکلے ہیں یہ خیال نہ کیا جاوے کہ ان پر پھر کوئی موقعہ ہاتھ نہ آویگا کیونکہ یہ لوگ اگرچہ اب بچ گئے ہیں مگر اللہ کو وہ عاجز نہیں کرسکتے وہ ہر وقت اللہ کے قبضہ میں ہیں تم ان کے واسطے سامان جنگ تیار رکھو اور جہاں تک ممکن ہو تیر اندازی کے ہنر کی مشقیں کرو آیت میں جو سن قوۃ کا لفظ ہے اس کی تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ قوۃ سے مطلب تیراندازی ہے عقبہ ؓ بن عامر کی حدیث جو مسلم وابن ماجہ و ابوداؤد میں ہے اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس میں عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قوۃ تیرا ندازی کا نام ہے اور دو بار اسی طرح آپ نے فرمایا حضرت عبداللہ ؓ بن عباس کا بھی یہی قول ہے کہ قوت تیر اندازی اور لڑائی کے ہتھیاروں کے فراہم کرنے کو کہتے ہیں پھر اللہ جل شانہ نے تیراندازی اور باقی سامان جنگ کی تیاری کے بعد گھوڑوں کا ذکر فرمایا کہ لڑائی کے واسطے گھوڑے بھی پالو بخاری اور مسلم میں ابوہریرہ ؓ کی ایک روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا بعض شخصوں کے لئے گھوڑا اجر ہے اور بعضوں کے واسطے پردہ اور بعضوں کے لئے گناہ ہے جس شخص کے واسطے گھوڑا اجر ہے وہ شخص وہ ہے جس نے محض خدا کے واسطے کسی چرا گاہ یا باغ میں گھوڑا باندھ رکھا ہے وہ جو کچھ وہاں سے کھاتا پیتا ہے وہ سب اس شخص کی نیکیوں میں شمار ہوتا ہے اور لید اور پیشاب تک اس کی حق میں حسنات ہوں گے اگر وہ گھوڑا کسی نہر میں سے پانی پی لے گا تو وہ بھی اس کی نیکی میں لکھا جاویگا اور جس شخص نے گھوڑا اس لئے باندھ رکھا ہے کہ خدا نے اس کو دولت دی ہے اس کے واسطے یہ گھوڑا پردہ ہے اور جس نے محض دنیا کے دکھاوے کو گھوڑا رکھا ہے اس کے لئے وہ گھوڑا گناہ ہے خدا کی راہ میں گھوڑے پالنے کے اجر کی اور بھی صحیح حدیثیں ہیں پھر اللہ پاک نے یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سامان جنگ اور گھوڑے باندہنے کا اس لئے حکم دیا کہ تمہارے دشمنوں کے دلوں میں رعب پیدا ہو دشمنوں کی تفسیر میں مفسرین کا یہی قول ہے کہ مشرک اور کافر وغیرہ سب عرب کے کفار مراد ہیں پھر یہ فرمایا کہ ان کفار کے سوا اور بھی لوگ ہیں جن کو تم نہیں جانتے ہو اللہ کو ان کا علم ہے بعضے سلف نے کہا ہے کہ یہ لوگ یہود اور فارس وروم کے لوگ ہیں اور بعضوں نے کہا ہے کہ یہ منافق ہیں جن کے باب میں اللہ نے یہ فرمایا کہ میں انہیں جانتا ہوں تم نہیں جانتے اور بعضے مفسریہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ خاص بنی قریظہ ہیں مگر اس کو خدا ہی کے علم پر موقوف رکھنا بہتر ہے کیونکہ اللہ پاک نے خود حضرت کو فرمایا کہ تم ان کو نہیں جانتے پھر اللہ پاک نے یہ فرمایا کہ یہ خدا کی راہ میں تمہارا خرچ کرنا برباد نہیں جائے گا اس کا پورا پورا بدلہ آخرت میں تمہیں ملے گا ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا بلکہ سات سو تک اجر زیادہ ملے گا چناچہ اس کا ذکر سورة بقر کی تفسیر میں گذر چکا ہے ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی تسلی جو فرمائی اس کا ظہور بھی وقت مقررہ پر یوں ہوتا رہا کہ جو مشرکین مکہ بدر کی لڑائی میں بچ گئے تھے ان میں کے کچھ تو فتح مکہ سے پہلے مسلمانوں کے ہاتھ سے مارے گئے جنانچہ احد کی لڑائی میں جب تک اللہ کے رسول کا بتلایا ہوا پہاڑ کا ناکہ مسلمان تیراندازوں نے نہیں چھوڑا تھا اس وقت تک اس لڑائی میں مسلمانوں کا ایسا غلبہ تھا کہ اور دشمنوں کے علادہ دشمنوں کے نو نشانے بردار طلحہ بن عثمان وغیرہ مسلمانوں کے ہاتھ سے مارے گے آخر یہ سب بدر کی لڑائی میں کے بچے ہوئے لوگ تھے بدر کی لڑائی میں کے بچے ہوئے مشرکوں میں سے جو لوگ فتح مکہ تک مسلمانوں کے ہاتھ سے مارے نہیں گئے فتح مکہ پر آخر وہ عاجز ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے چناچہ وہ ابوسفیان جس کے قافلہ کے سبب سے بدر کی لڑائی ظہور میں آئی فتح مکہ پر مسلمان ہو کر صحیح بخاری کی برائ ؓ بن العازب کی روایت کے موافق حنین کی لڑائی میں خدا مت گاروں کی طرح آنحضرت ﷺ کی سواری کے خچر کی باگ پکڑ کر ان ابوسفیان ؓ نے اللہ کے رسول کا ساتھ دیا سورة بقر کی جس آیت کا حوالہ اوپر گذرا ہے جس میں ایک نیکی کا اجر سات سو نیکیوں تک کا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ اجر کے ملنے کا وعدہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اس کی تفصیل سورة بقر کی آیت من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا (2: 245) کی تفسیر میں گذر چکی ہے۔
Top