Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anfaal : 61
وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَاِنْ : اور اگر جَنَحُوْا : وہ جھکیں لِلسَّلْمِ : صلح کی طرف فَاجْنَحْ : تو صلح کرلو لَهَا : اس کی طرف وَتَوَكَّلْ : اور بھروسہ رکھو عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ اِنَّهٗ : بیشک هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہوجاؤ اور خدا پر بھروسہ رکھو۔ کچھ شک نہیں کہ وہ سب کچھ سنتا (اور) جانتا ہے۔
61۔ 63۔ اللہ پاک اس آیت میں آنحضرت ﷺ کو فرماتا ہے کہ اگر کفار صلح کا پیغام دیں اور لڑائی سے بچیں تو صلح کرلو اسی واسطے حدیبیہ کی صلح کے وقت جب مشرکین مکہ نے صلح چاہی اور دس برس تک جنگ کے موقوفی کی درخواست کی تو اللہ کے رسول نے اس صلح کے پیغام کر مان لیا اور جو جو شرطیں انہوں نے پیش کیں انہیں قبول کرلیا مسند امام احمد میں حضرت علی ابن ابوطالب ؓ کی ایک حدیث ہے کہ جب اختلاف ہوتا دکھلائی دے تو اگر تجھ سے صلح ہو سکے تو کرلے صحیح بخاری و مسلم میں صلح حدیبیہ کی جو روایتیں ہیں ان سے حضرت علی ؓ کی روایت کی پوری تقویت ہوتی ہے کیونکہ یہ صلح آپ کا اختلاف رفع کرنے کے لئے ہوئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت قَاتِلُوا ّالَّذِیْنَ لَاُیؤْمِنُون بِاللّٰہ (9: 29) سے منسوخ ہے اور مجاہد بھی کہتے ہیں کہ یہ آیت فَافْتَلْوا الْمُشرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْ تُمُوْھُمْ (9: 5) سے منسوخ ہے مگر جمہور علما کا قول یہ ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے بلکہ دونوں آیتیں درگذر اور لڑائی کی آیتوں کی طرح اپنی اپنی جگہ ہیں چناچہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے اصحاب نبی ﷺ نے صلح جائز رکھی ہے اور حضرت ﷺ نے حدیبیہ میں ایسا ہی کیا تھا جیسا کہ اوپر گذرا پھر اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ اس صلح میں خدا ہی پر بھروسہ رکھو اگر اس صلح سے ان کا کوئی اور مطلب ہے تو خدا ان کے قول کو سنتا ہے اور ان کی نیتوں کو جانتا ہے اس لئے اگر ان کا ارادہ اس صلح سے یہ ہے بدر کی لڑائی کے وقت اپنی مدد بھیج کر فتح یاب کیا ہے اور ہمیشہ ہر کام میں مدد کرتا رہا ہے پھر اس کے بعد اللہ جل شانہ نے اپنی اس تائید کا ذکر فرمایا جو اس نے اپنے بندوں کے ذریعہ سے پہنچائی چناچہ فرمایا کہ خود اللہ تعالیٰ جو کچھ مدد پہنچاتا رہتا ہے وہ تو پہنچتی ہی ہے مگر انصار جو ایمان لاکر تمہارے ساتھ ہوگئے ہیں اور ہر گاہ میں تمہارے قوت بازو بن گئے اور تمہاری اطاعت میں ہمیشہ تنہا پشت کی مخالفت کچھ ایسی نہ تھی جو آسمانی سے رفع ہوجاتی اگر دنیا بھر کی دولت ان کی تالیف کے واسطے خرچ کی جاتی اور بڑی سے بڑی قوت صرف کی جاتی تب بھی ان کا قدیمی بغض رفع دفع نہ ہوتا حضرت عبداللہ بن ؓ عباس فرماتے ہیں کہ یہ لوگ انصار اس کے قبیلہ اوس اور قبیلہ خزرج ہیں ان کے آپس کی دشمنی ایام جاہلیت میں اس حدتک پہنچ گئی تھی کہ ایک دوسرے کے خون کا پیاسا تھا اور بڑی بڑی لڑایاں ان دونوں قبیلوں میں ہوچکی تھیں ایک سو بیس برس سے یہ بغض چلا آتا تھا مگر اللہ نے ان کے دلوں کو نور ایمان سے منور فرما کر سارے گروہ کو ایک اسلام کے راستہ پر لگا دیا اور ایک کو دوسرے کی وہ محبت دی کہ بھائی بھائی بن گئے اور سب کے سب آنحضرت ﷺ کے لئے جان اور مال فدا کرنے پر آمادہ ہوگئے یہ قدرت خدا ہی کی تھی اس کا ظہور آنحضرت ﷺ کا ایک معجزہ شمار کیا جاتا ہے اوس اور خزرج کا یہ حال سورة آل عمران میں گذر چکا ہے علاوہ ان دو قبیلوں کے عرب کے اور قبیلوں میں بھی باہم کوئی ہمدردی نہ تھی ایک کا مال دوسرا چھین کر کھا لیتا تھا اور مال مال کا خون کردینا کچھ بڑی بات نہ سمجھتا تھا مگر اللہ پاک نے آنحضرت ﷺ کو بھیج کر ان لوگوں کی سخت دلی کو نرم دلی سے بدل ڈالا اور ان میں وہ محبت کا مادہ پیدا کردیا کہ جس کے بیان کرنے کے لئے ایک دفتر درکار ہے اور پھر انہوں نے ایک دل ہو کر جو جو کار نمایاں کی وہ صفحہ ہستی پر یادگار ہیں جو قیامت تک باقی رہیں گے ان کی مثالیں شاید ڈھونڈہنے سے بھی کسی اور قوم میں نہ ملیں گی یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ کہ ہر ایک شخص کے دل پر اللہ کا پورا پورا قبضہ و اختیار ہے ہر ایک کا دل اس کے ہاتھ میں ہے وہ جدھر پھیرنا چاہے گھڑی بھر میں پھیردے معتبر سند سے نسائی میں ابن مسعود ؓ کی ایک حدیث ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کی شان میں اتری ہے جو آپس میں خدا کے واسطے محبت رکھتے ہیں اور کوئی غرض دنیا کی اس محبت سے نہیں رکھتے حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے طبرانی میں سلمان ؓ فارسی سے ایک روایت ہے کہ جب ایک مسلمان کسی دوسرے اپنے مسلمان بھائی سے ملتا ہے اور مصافحہ کرتا ہے تو اس کے گناہ مثل پتوں کے جھڑتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح درخت کے خشک پتے آندھی سے جھڑتے ہیں اسی طرح ان دونوں کے گناہ جن کے دلوں میں محض خدا کے واسطے محبت ہے ایک دوسرے سے ملتا ہے اور ایک کا ایک ہاتھ پکڑتا اور مصافحہ کرتا ہے تو ان کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے درخت سے پتے معتبر سند سے اسی مضمون کی حدیث اوسط طبرانی میں حذیفہ ؓ بن الیمان کی روایت سے بھی ہے جس سے سلمان فارسی ؓ کی روایت کو تقویت ہوجاتی ہے عبادہ بن ابی لبابہ نے کہا کہ پھر تو گناہوں کے معاف ہوجانے کے لئے یہ بہت آسان ہے اس کا مجاہد نے یہ جواب دیا کہ ایسا نہ کہو خدا نے آنحضرت کو فرمایا ہے لوانفقت مافی الارض جمیعا ما الفت بین قلوبھم عبادہ کہتے ہیں کہ میں نے اسی روز سے جانا کہ مجاہد مجھ سے زیادہ عالم ہیں پھر اللہ پاک نے اپنی صفت بیان کی کہ اللہ سب چیزوں پر غالب ہے جس بات کا ارادہ کرتا ہے اس میں کسی قسم کی دشواری نہیں ہوتی اور حکیم ہے اس کی کوئی بات حکمت سے خالی نہیں ہے یہ عبادہ بن ابی لبابہ قتادہ کے ہم رتبہ ثقہ تابعی ہیں صحاح کی کتابوں میں ان سے روایتیں ہیں صحیح بخاری ومسلم میں عبداللہ زیدبن عاصم ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے انصار سے فرمایا کہ قدیمی عداوت کے سبب سے تم لوگوں میں پھوٹ پڑی ہوئی تھی اللہ کے رسول کے مدینہ میں آنے کی برکت سے وہ تمہاری آپس کی پھوٹ جاتی رہی سورة آل عمران میں جو قبیلہ اوس و خزرج کی پھوٹ کے رفع ہوجانے کو اللہ تعالیٰ نے ایک نعمت کے طور پر ذکر فرمایا ہے اس سے اور اس صحیح حدیث سے حضرت عبداللہ ؓ بن عباس کے اس قول کی پوری تائید ہوتی ہے کہ ان آیتوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے احسان کے طور پر جس پھوٹ کے رفع ہوجانے اور آپس کی دلی الفت کا تذکرہ فرمایا ہے وہ بھی انصار کے قبیلہ اوس و خزرج ہی کا ذکر ہے اس صورت میں جن مفسروں نے عبداللہ بن مسعود ؓ اور سلمان ؓ فارسی کی حدیثیں ان آیتوں کی تفسیر میں نقل کی ہیں ان کا مطلب یہ ہے کہ اصل میں ان آیتوں کا شان نزول تو وہی ہے جو امام المفسرین حضرت عبداللہ ؓ بن عباس نے بیان کیا ہے لیکن انصار کے قبیلہ اوس و خزرج کے مسلمانوں کی طرح اب بھی جو دو مسلمان آپس میں دینی محبت رکھیں گے آیتوں میں گویا ان سب کا ذکر ہے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عام قدرت جتلانے کو فرمایا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک سوبیس برس کی عداوت کو مٹا کر انصار کے قبیلہ اوس و خزرج میں اپنی قدرت اور حکمت سے ملاپ کرادیا اسی طرح وہ ایسا زبردست صاحب قدرت ہے کہ جس کام کا وہ ارادہ کرتا ہے اس میں کسی طرح دشواری نہیں ہوتی اور صاحب حکمت وہ ایسا ہے کہ اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا جس طرح اردو کا محاورہ ہے کہ دو لشکروں میں صلح ہوگئی اسی طرح عربی میں صلح مؤنث ہے اسی واسطے فَاجْنَحْ لھَا فرمایا فْاَجْنح لَہٗ نہیں فرمایا۔
Top