Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anfaal : 74
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْۤا اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا١ؕ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَهَاجَرُوْا : اور انہوں نے ہجرت کی وَجٰهَدُوْا : اور جہاد کیا انہوں نے فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰوَوْا : ٹھکانہ دیا وَّنَصَرُوْٓا : اور مدد کی اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ هُمُ : وہ الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) حَقًّا : سچے لَهُمْ : ان کے لیے مَّغْفِرَةٌ : بخشش وَّرِزْقٌ : اور روزی كَرِيْمٌ : عزت
اور جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور خدا کی راہ میں لڑائیاں کرتے رہے۔ اور جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) جگہ دی اور ان کی مدد کی یہی لوگ سچے مسلمان ہیں۔ ان کے لئے (خدا کے ہاں) بخشش اور عزت کی روزی ہے۔
74۔ 75۔ اللہ تعالیٰ نے مہاجرین اور انصار اور ہجرت نہ کرنے والے مسلمان ان سب کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں فرمایا جو لوگ ہجرت کر کے اور اپنا اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ میں چل آئے اور جو لوگ ان مہاجرین کے ہر طرح مددگار بنے بیشک وشبہ وہ کامل مومن ہیں ان کا عقبے کا انجام بیان کیا کہ ان کے واسطے آخرت میں بخشش ہے کیونکہ ان لوگوں نے اپنی جان اور مال سے کسی طرح دریغ نہ کیا ہر غنیمت ان کے واسطے حلال ہے اور آخرت میں جو نعمتیں ان کو ملیں گی وہ بےمشقت ہوں گی پھر اللہ پاک نے ان لوگوں کو بھی جو بعد میں ہجرت کر کے آئے انہیں مہاجرین اور انصار کے حکم میں داخل کیا کہ یہ لوگ پہلے اگرچہ مہاجرین کے ساتھ نہیں آئے مگر بعد میں تو اپنے گھر بار چھوڑ دئے مال چھوڑا کنبہ رشتہ چھوڑا محض خدا کے واسطے آئے ہیں اسلئے ان کے واسطے بھی مغفرت ہے جس طرح غنیمت میں الگ لوگوں کا حصہ ہے اسی طرح ان پچھلے مہاجرین کا بھی حصہ ہے پھر اللہ پاک نے قرابت کا ذکر فرمایا کہ جن لوگوں کے درمیان میں ناتہ رشتہ نہیں ہے ہجرت کی وجہ سے جو بھائی بندی ہوئی ہے اس سے اولے قرابت کا رشتہ ہے کیونکہ یہی باتیں لوح محفوظ کے موافق قرآن مجید میں ہیں پھر فرمایا کہ اللہ پاک ہر شے کا جاننے والا ہے اس لئے جتنے احکام اس نے لوح محفوظ کے موافق قرآن مجید میں نازل فرمائے ہیں ان میں سے کوئی بےفائدہ نہیں ہے ایک آیت میں کسی خاص سبب سے کوئی حکم ہوا اور پھر اس اسلام میں جب تک مسلمانوں کے پاس لڑائی کا سامان نہیں تھا تو مخالف لوگوں کے ایذا دینے کی حالت پر مسلمانوں کو درگذر کا حکم تھا پھر جب مسلمانوں کے پاس لڑائی کا سامان ہوگیا تو لڑائی کا حکم نازل ہوا جس کا مطلب یہ ہے کہ پھر جب مسلمان ابتدائے اسلام کی حالت میں ہوں تو وہی درگذر کا پہلا حکم قائم ہوجاویگا اسی طرح جب تک مہاجرین کے رشتہ دار مکہ سے مدینہ میں نہیں آئے تھے تو مہاجرین کے دینی بھائی انصار مہاجرین کے وارث قرار دئے گئے تھے پھر جب مہاجرین کے رشتہ دار مدینہ میں آگئے تو آیت اولو الا رحام نازل ہو کر اس کے موافق رشتہ داروں کی وراثت قائم ہوگئی لیکن اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی پہلی حالت کے موافق جب دیکھ کوئی مسلمان لاوارث فوت ہوا تو اس کے مسلمان بھائی اس کے مال کے حقدار قرار دئے گئے اور بیت المال میں وہ مال داخل ہو کر اس کے دینی بھائیوں کی ضرورتوں میں صرف ہوا چناچہ معتبر سند سے مسند امام احمد ابوداؤد وغیرہ میں مقدام بن بعدی کرب ؓ کی جو روایت ہے اس میں اس کا ذکر ہے ان ہی وجو ہات سے علامہ جلال الدین سیوطی (رح) نے اتقان میں اور شاہ ولی اللہ (رح) نے الفوز الکبیر میں آیت اولوالارحام سے کسی پہلے حکم کو منسوخ نہیں ٹھہرایا سورة نساء کی آیت ولکل جعلنا موالی (4: 33) کی تفسیر میں بھی یہ ناسخ منسوخ کا تذکرہ گذر چکا ہے۔
Top