بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ghaashiya : 1
هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَةِؕ
هَلْ : کیا اَتٰىكَ : تمہارے پاس آئی حَدِيْثُ : بات الْغَاشِيَةِ : ڈھانپنے والی
بھلا تم کو ڈھانپ لینے والی (قیامت) کا حال معلوم ہوا ہے ؟
1۔ 7۔ حضرت عبد اللہ بن 3 ؎ عباس کے قول کے موافق غاشیۃ قیامت کا نام ہے غشاء کے معنی پردے کے ہیں قیامت کی سختیاں لوگوں کی عقل اور ان کے حواس پر پردہ کی طرح چھا جائیں گی جس سے وہ بالکل بدحواس ہوجائیں گے اس لئے قیامت کو غاشیہ کہا گیا۔ آدمی کے اعضاء میں منہ ایک بڑی دکھاوے کی چیز ہے اس لئے منہ کا ذکر کرکے سارا بدن اس سے مراد لیا گیا ہے اکثر مفسرین کے نزدیک یہاں ھل کے معنی قد کے ہیں حاصل یہ ہے کہ اے نبی اللہ کے قیامت کے دن نیک و بد جو کچھ حالت گزرے گی اس کا حال تم کو اور تمہاری امت کو اکثر آیات قرآنی سے معلوم ہوچکا ہے پھر اس حالت کی تفصیل فرمائی جس کا حاصل یہ ہے کہ اہل دوزخ اس دن طرح طرح سے خوار ہوں گے اور اہل جنت طرح طرح کی عزت اور راحت پائیں گے صحیحین 4 ؎ میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا دوزخ کی آگ میں دنیا کی آگ سے ستر حصے حرارت زیادہ ہوگی۔ ترمذی 5 ؎ میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہزار برس تک دوزخ کی آگ کو دہکایا گیا تو اس کا رنگ سرخ ہوا پھر ہزار برس تک دہکایا گیا تو سفیدی مائل رنگ ہوگیا پھر ہزار برس دہکایا گیا تو بالکل سیاہ رنگ ہوگیا اب اس کا رنگ خوفناک بالکل کالا ہے صحیح 1 ؎ مسلم میں حضرت سمرۃ بن جندب سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا دوزخی وگ جو دوزخ کی آگ میں ڈالے جائیں گے تو اپنے اپنے عمل کے موافق کسی کے ٹخنوں تلک آگ ہوگی اور کسی کے گھنٹوں تلک اور کسی کی کمر تلک اور کسی کی گردن تلک دوزخ کے گرم پانی کی تفسیر ترمذی 2 ؎ وغیرہ کی روایتوں میں ہے کہ دوزخیوں کے پلانے کے لئے جب وہ پانی ان کے منہ کے پاس لایا جائے گا تو اس پانی کی گرم بھاپ سے دوزخیوں کے منہ کی کھال اتر جائے گی اور جب وہ پانی پلایا جیائے گا تو انتڑیاں کٹ کر گر پڑیں گی اور وہی پانی ان کے سر پر ڈالا جائے گا جس سے جسم کے اندر تک حرارت پہنچ کر دل اور جگر سب نکل پڑے گا پھر ہر دوزخی کو اصلی حال پر لایا جائے گا اور گھڑی گھڑی یہی عذاب کیا جائے گا اور کانٹوں دار گھانس ان کو نگلائی جائے گی جو ان کے حلق میں پھنس جائے گی اس کو حلق سے اتارنے کے لئے جب وہ پانی مانگیں گے تو یہی گرم پانی پلایا جائے گا اور یہ گھانس کچھ پیٹ میں اترے گی تو اس سے پیٹ نہ بھرے گا مفسرین نے لکھا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ دوزخیوں کی خوراک ضریع کانٹوں دار گھانس ہوگی تو مشرکین مکہ کہنے لگے ضریع تو اچھی چیز ہے اس سے تو ہمارے اونٹ موٹے ہوجاتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کا ٹکڑا نازل فرمایا کہ اس گھانس سے نہ کسی کا پیٹ بھرے گا اور نہ کوئی موٹا ہوگا۔ (3 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 502 ج 4 و تفسیر الدر المنثور ص 342 ج 6۔ ) (4 ؎ صحیح بخاری باب صفۃ النار و انھا مخلوقۃ ص 461 ج 1 و صحیح مسلم باب جھنم اعازنا اللہ منھا ص 381 ج 2) (5 ؎ جامع ترمذی ابواب صفۃ النار ص 96 ج 2۔ ) (2 ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی صفۃ شراب اھل النار ص 95 ج 2۔ ) (1 ؎ صحیح مسلم با جہنم اعاذنا اللہ منھا ص 381 ج 2)
Top