Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tawba : 105
وَ قُلِ اعْمَلُوْا فَسَیَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ١ؕ وَ سَتُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَۚ
وَقُلِ : اور کہ دیں آپ اعْمَلُوْا : تم کیے جاؤ عمل فَسَيَرَى : پس اب دیکھے گا اللّٰهُ : اللہ عَمَلَكُمْ : تمہارے عمل وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول وَالْمُؤْمِنُوْنَ : اور مومن (جمع) وَسَتُرَدُّوْنَ : اور جلد لوٹائے جاؤگے اِلٰى : طرف عٰلِمِ الْغَيْبِ : جاننے والا پوشیدہ وَالشَّهَادَةِ : اور ظاہر فَيُنَبِّئُكُمْ : سو وہ تمہیں جتا دے گا بِمَا : وہ جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
اور (ان سے) کہہ دو کہ عمل کئے جاؤ۔ خدا اور اس کا رسول اور مومن (سب) تمہارے عملوں کو دیکھ لیں گے۔ اور تم غائب وحاضر کے جاننے والے (خدائے واحد) کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ پھر جو کچھ تم کرتے رہے ہو (سب) تم کو بتائے گا۔
105۔ جہاد میں جن لوگوں سے سستی ہوئی تھی اور وہ اپنے عیش و آرام میں پڑے رہے انہوں نے اپنے قصور کا اقرار کیا تھا ان کی نسبت یہ حکم ہوا کہ اے رسول اللہ تم ان سے کہہ دو کہ عمل کئے جاؤ ابھی تو بہتیرے جہاد ہوں گے اس وقت خدا اور خدا کا رسول اور مومنین سب تمہارے کام اور مستعدی دیکھ لیں گے۔ مجاہد (رح) کا قول ہے کہ اس آیت میں برے کاموں سے خوف اور اچھے عمل کا شوق دلایا گیا ہے کیونکہ جس کو یہ معلوم ہوگا کہ میرے عمل اللہ سے پوشیدہ نہیں ہیں تو گناہوں سے بچے گا اور نیکی کی کوشش کرے گا۔ جب حضرت ﷺ موجود تھے تو آنکھوں سے لوگوں کے عمل دیکھتے اور کانوں سے سنتے تھے اب آپ کی امت کے عمل آپ کے اور مومنوں کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔ چناچہ معتبر سند سے ابن ماجہ میں ابوداود کی روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اے لوگو جمعہ کے دن درود زیادہ پڑھا کرو کہ تمہارے درود میرے روبرو پیش ہوتے 1 ؎ ہیں اسی طرح ابوداؤد طیالسی میں جابر ؓ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ زندوں کے عمل ان کے اور رشتہ دار مردوں کے سامنے پیش ہوتے ہیں اگر اچھے عمل ہیں تو وہ خوش ہوتے ہیں اگر برے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں یا اللہ ان کے دل میں یہ بات ڈال دے کہ یہ تیری اطاعت کو سمجھیں 2 ؎ مسندامام احمد میں اس مضمون کی ایک روایت انس بن مالک ؓ کی بھی 3 ؎ ہے لیکن اس کی سند میں ایک راوی کا نام مبہم طور پر ہے اور ابو طیالسی کی سند میں ایک راوی صلت بن دینار متروک ہے اس سبب سے یہ روایتیں ضعف سے خالی نہیں ہیں اس لئے رشتہ دار وفات یافتہ کے سامنے زندہ رشتہ داروں کے عملوں کی پیش ہونے کا مسئلہ توجہ طلب ہے لیکن اس بات میں کچھ آثار صحابہ کے ہیں صحیح مسلم کی ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث اس تفسیر میں ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہر شخص کے دن کے عمل رات سے پہلے اور رات کے عمل دن سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ملاحظہ میں ملائکہ پہنچا دیتے ہیں 4 ؎ یہ حدیث فسیری اللہ عملکم کی گویا تفسیر ہے بخاری میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ جب تم کسی کو اچھے عمل کرتے دیکھو تو کہو اعملوا فسیری اللہ عملکم ورسولہ والمومنون 5 ؎۔ عالم الغیب والشہادۃ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب دان ہے نہ اس کو یادداشت کے لئے فرشتوں سے لوگوں کے اعمال نامے لکھوانے کی ضرورت ہے نہ صبح شام ان اعمال ناموں کے ملاحظہ فرماتے اور ملاحظہ کے بعد ان کو حفاظت سے سر بمہر رکھوانے کی ضرورت ہے بات فقط اتنی ہی ہے کہ بنظر انصاف اللہ تعالیٰ نے سزا وجزا کا مدار اپنے علم غیب پر نہیں رکھا ہے بلکہ سزا وجزا کا دارو مدار ظاہر حالت پر رکھا ہے اس واسطے یہ سب انتظام ظہور میں آیا ہے فینبئکم بما کنتم تعلمون اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے سزاو جزا کا مدار اپنے علم غیب پر نہیں رکھا تو ظاہر حالت کے موافق قیامت کے دن یہی انتظام ہوگا کہ ہر شخص کا نامہ اعمال اس کو دیا جائے گا عمر بھر جو کچھ دنیا میں اس نے کیا ہے وہ سب اس کو جتا دیا جاویگا اس جتلانے کے وقت بعضے لوگ ایسے ہونگے کہ اعمال نامہ میں اپنے گناہوں کا اقرار کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے سچ بولنے پر ان سے خوش ہو کر ان کے گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ صحیح بخاری ومسلم کی عبداللہ بن عمر ؓ کی حدیث 6 ؎ ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں اس معافی کا ذکر ہے بعضے لوگ ایسے ہوں گے جو اعمال نامہ میں کھلے ہوئے گناہوں کا انکار کریں گے ان کا انجام یہ ہوگا کہ ان کے منہ پر سکوت کی مہر لگائی جاکر ان کے ہاتھ پیروں کو گناہوں کی گواہی دینے کا حکم ہوگا وہ سب گناہوں کی گواہی دیویں گے اور اس گواہی پر ان لوگوں کے مخالف آخری فیصلہ ہوجاویگا۔ سورت یس میں اس کا ذکر تفصیل سے آویگا اور اس بات میں صحیح مسلم کے حوالہ سے انس بن مالک ؓ کی حدیث 7 ؎ بھی ایک جگہ گذر چکی ہے۔ 1 ؎ ابن ماجہ ص 119 باب ذکر وفاتہ دوفنہ 2 و 3 و 5 ؎ تفسیر ابن کثیر ج 2 ص 387 4 ؎ صحیح مسلم ج 1 ص 99 باب معنی قول اللہ عزوجل ولقدراہ نزلۃ اخری الخ 6 ؎ مشکوٰۃ ص 485 باب الحساب الخ فصل اول 7 ؎ صحیح مسلم ج 2 ص 409 کتاب الزہد۔
Top