Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tawba : 107
وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّ كُفْرًا وَّ تَفْرِیْقًۢا بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ مِنْ قَبْلُ١ؕ وَ لَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَاۤ اِلَّا الْحُسْنٰى١ؕ وَ اللّٰهُ یَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اتَّخَذُوْا : انہوں نے بنائی مَسْجِدًا : مسجد ضِرَارًا : نقصان پہنچانے کو وَّكُفْرًا : اور کفر کے لیے وَّتَفْرِيْقًۢا : اور پھوٹ ڈالنے کو بَيْنَ : درمیان الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) وَاِرْصَادًا : اور گھات کی جگہ بنانے کے لیے لِّمَنْ : اس کے واسطے جو حَارَبَ : اس نے جنگ کی اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول مِنْ : سے قَبْلُ : پہلے وَلَيَحْلِفُنَّ : اور وہ البتہ قسمیں کھائیں گے اِنْ : نہیں اَرَدْنَآ : ہم نے چاہا اِلَّا : مگر (صرف) الْحُسْنٰى : بھلائی وَاللّٰهُ : اور اللہ يَشْهَدُ : گواہی دیتا ہے اِنَّھُمْ : وہ یقیناً لَكٰذِبُوْنَ : جھوٹے ہیں
اور (ان میں ایسے بھی ہیں) جنہوں نے اس غرض سے مسجد بنائی ہے کہ ضرر پہنچائیں اور کفر کریں اور مومنوں میں تفرقہ ڈالیں۔ اور جو لوگ خدا اور اس کے رسول سے پہلے جنگ کرچکے ہیں ان کے لئے گھات کی جگہ بنائیں اور قسمیں کھائیں گے کہ ہمارا مقصود تو صرف بھلائی تھی مگر خدا گواہی دیتا ہے کہ یہ جھُوٹے ہیں۔
107۔ 110۔ معتبر سند سے تفسیر ابن جریر ابن ابی حاتم ابن مردو یہ میں امام المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے قول کے موافق جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ قبیلہ خزرج میں ایک شخص ابو عامر تھا جو زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہوگیا تھا اور تورات اور انجیل اس نے خوب پڑھی تھی اور قبیلہ کے لوگ اس کی عزت کرتے تھے جب آنحضرت مدینہ میں تشریف لائے اور قبیلہ خزرج کے لوگ بہت مسلمان ہوئے تو یہ ابو عامر اسلام نہ لایا اور آنحضرت سے ایک طرح کی عداوت رکھنے لگا اور مکہ کو چلا گیا احد کی لڑائی کے زمانہ میں اہل مکہ کو بہکا کر مسلمانوں پر چڑھا کر لایا اور چند گڑھے اس نے لڑائی کی صفوں کے بیچ میں کھود دئے تھے جن میں سے ایک گڑھے میں گر کر آنحضرت کے چوٹ لگ گئی تھی ہرقل بادشاہ روم کے پاس اس ابوعامر نے جاکر مدد کی خواہش کی اور اس بادشاہ نے مدد کا وعدہ بھی کیا تھا اسی وعدہ کے بھروسہ پر اس نے اپنے قبیلہ کے چند منافقوں کو خط لکھا تھا تم اپنی جگہ ہتھیار اور سامان سے تیار رہو میں چند روز میں روم سے فوج لے کر آتا ہوں اور میرے لئے کوئی ٹھکانا ایسا بنا رکھو جہاں میں آن کر اتر سکوں اسی ارادہ سے چند منافقوں نے مسجد نبوت اور مسجد قبا کے توڑ پر یہ مسجد بنائی اور جب آنحضرت ﷺ تبوک کی لڑائی کو تشریف لے جارہے تھے اس وقت ان مناقوں نے آنحضرت سے ایک دفعہ اس نئی مسجد میں چلنے اور نماز پڑھنے کی خواہش کی آپ نے فرمایا اب تو سفر درپیش ہے انشاء اللہ سفر سے واپس آنے کے بعد میں اس مسجد میں آؤں گا واپسی کے وقت راستہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں 1 ؎ اور اس مسجد کا فریب ظاہر فرما دیا اس پر آپ نے وہ مسجد ڈھوائی اب وہاں کوڑا پڑتا ہے اکثر سلف نے لکھا ہے کہ اس مسجد کی ڈھانے کے بعد اس کے بنیاد کے گڑہوں میں پہلے دھواں نکلتا تھا اس مسجد کی مذمت کے ساتھ جس مسجد کی اللہ تعالیٰ نے تعریف فرمائی ہے وہ مسجد قبا ہے اور مسجد نبوی بدرجہ اولی اس تعریف میں شامل ہے کیونکہ یہ دونوں مسجدیں آنحضرت نے بنوائیں ہیں اور نیک نیتی سے بنائی گئی ہیں اور قیامت اور کسی فساد کی نیت سے جو مسجدیں بنائی جاویں وہ اس تعریف کے حکم میں داخل ہیں اس طرح جماعت میں پھوٹ ڈالنے خرابی تو یہ تھی کہ دین الّٰہی کے دشمن ابو عامر کا ٹھکانا جمانے کے لئے منافقوں نے یہ مسجد بنائی تھی جس کے تیار ہوجانے کے بعد ان منافقوں کو ابو عامر من قبل اسی سبب سے اس مسجد کا نام مسجد ضرار فرمایا جس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ ان منافقوں نے ابوعامر کو بلا کر اس مسجد میں جمانے اور مسلمانوں مسجد قبا میں نماز پڑہتے تھے اس مسجد ضرار کے بنانے سے منافقوں کا یہ مقصد بھی ضد کے طور پر تھا کہ مسجد قبا کی جماعت میں پھوٹ پڑجاوے، قسمیں کھا کر اللہ کے رسول کو یہ دہوکا دیا تھا کہ مینہ بوندی اور اندہیری رات میں نماز پڑھ لینے کی آسائش کے لئے یہ مسجد بنائی گئی ہے اللہ تعالیٰ نے منافقوں کو جھٹلایا اور ان کی نیت میں جتنی خرابیاں تھیں وہ سب ان آیتوں میں اپنے رسول کو جتلا کر اس مسجد میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا اور مسجد قبا میں نماز پڑھنے کی رغبت دلائی۔ حاصل یہ ہے کہ اس مسجد میں بہت سی خرابیاں تھیں اس لئے یہ مسجد جلا کر ڈھا دی گئی اب بھی اگر کوئی نئی مسجد نام نمود کے لئے ایسی بنائی جاوے جس سے پہلے کی مسجد کی جماعت میں کمی اور پھوٹ پڑجاوے تو چناچہ مسند امام احمد ابوداؤد نسائی صحیح ابن خزیمہ وغیرہ میں انس بن مالک ؓ کی روایت 2 ؎ ہے اس میں اس کا ذکر صراحت سے ہے۔ ۔ مسند امام احمد ابوداؤد اور ابن ماجہ میں ابوموسیٰ اشعری ؓ کی روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جتنی دور کی مسافت طے کر کے دور کی مسجد میں نمازی شخص نماز پڑہیگا اسی قدر اس کو ثواب زیادہ ہوگا 3 ؎ اس حدیث کی سند میں ایک راوی عبدالرحمن بن مہران کو اگرچہ بعضے علماء نے نامعلوم الحال بتلایا ہے لیکن ابن حبان نے اس عبدالرحمن کو ثقہ لوگوں میں شمار کی 4 ؎ ہے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس آخری زمانہ میں پاس پاس مسجدیں جو بن گئی ہیں ان کے بنانے میں نام نمود کا خیال نہ بھی ہو تو ان مسجدوں میں اتنی خرابی ضرور ہے کہ لوگ دور کی مسجد میں نماز کو نہیں جاتے اور اس حدیث میں جس ثواب کا ذکر ہے ان پاس کی مسجدوں کی بدولت اس ثواب سے محروم رہتے ہیں مسجد قبا کے ذکر میں اہل قبا کی ستھرائی کی تعریف جو ان آیتوں میں ہے۔ امام المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی مسند بزاز کی روایت 5 ؎ کے موافق اس کی تفسیر یہ ہے کہ یہ لوگ جب جائے ضرورت کو جاتے تھے تو ڈھیلوں سے استنجا کرنے کے بعد پانی سے بھی استنجا کرتے تھے، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی اس حدیث کی سند میں ایک راوی محمد بن عبدالعزیز کو بعضے علماء نے ضعیف کہا ہے اس لئے اکثر علمائے سلف کا اس پر تو اتفاق ہے کہ ڈھیلوں سے استنجا کرنے کے بعد پانی سے استنجا کرنا افضل اور اولی ہے ہاں اس کے ضروری ہونے میں سلف کا اختلاف ہے جس کی تفصیل بڑی کتابوں میں 6 ؎ ہے شفا کے معنے کنارہ کے ہیں جرن وہ جگہ ہے جس کی جڑ پانی سے کٹ کر کمزور ہوجاتی ہے ھار وہ عمارت جو گرنے کے قریب ہو حاصل یہ ہے کہ مسجد ضرار آباد رہنے والی نہیں ایک دن گرے گی اور اپنی بدنیت بنانے والوں کو جہنم میں گرادے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے ظالم منافقوں کو مجبور کر کے راہ است پر لانا نہیں چاہتا اس لئے جیتے جی یہ لوگ شک ونفاق کی حالت میں رہیں گے مگر مرنے کے بعد ان پر وہ آفت آنے والی ہے جس سے ان کے دل پھٹ کر ٹکڑے اڑ جاویں گے آخر کو فرمایا اللہ کو ان کے سب کام معلوم ہیں اور اس نے بڑی حکمت اور انصاف سے قیامت کے دن ہر ایک کام کی سزا جزا ٹھہرائی ہے۔ 1 ؎ تنقیح الرداۃ ج 1 ص 128۔ 2 ؎ صحیح بخاری ج 1 ص 64 باب بنیان المسجد الخ 3 ؎ ابوداؤد ج 1 ص 82 باب ماجاء فی فضل المشی الخ وابن ماجہ ص 57 باب الابعد فالا بعد من المسجد اعظم اجرا لیکن یہ روایتیں ابوہریرہ ؓ سے ہیں۔ ابوموسیٰ اشعری ؓ کی روایت صحیح بخاری ج 1 ص 90 باب فضل صلوۃ الفجرفی جماعۃ میں ہے (ع۔ ر) 4 ؎ تہذیب التہذیب ج 7 ص 282 5 ؎ تفسیر ابن کثیر ج 2 ص 390 ونیل الاد طار ج 1 ص 123 باب الا ستنجا بالماء 6 ؎ نیل الاوطاء ج 1 ص 122 باب الاستنجا با لماء وفتح البائی ج 1 ص 126 باب الاستنجابالماء
Top