Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tawba : 126
اَوَ لَا یَرَوْنَ اَنَّهُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لَا یَتُوْبُوْنَ وَ لَا هُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
اَوَ : کیا لَا يَرَوْنَ : وہ نہیں دیکھتے اَنَّھُمْ : کہ وہ يُفْتَنُوْنَ : آزمائے جاتے ہیں فِيْ كُلِّ عَامٍ : ہر سال میں مَّرَّةً : ایک بار اَوْ : یا مَرَّتَيْنِ : دو بار ثُمَّ : پھر لَا يَتُوْبُوْنَ : نہ وہ توبہ کرتے ہیں وَلَا : اور نہ ھُمْ : وہ يَذَّكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑتے ہیں
کیا یہ دیکھتے نہیں کہ یہ ہر سال ایک یا دو بار بلا میں پھنسا دیئے جاتے ہیں پھر بھی توبہ نہیں کرتے اور نہ نصیحت پکڑتے ہیں ؟
126۔ 127۔ اللہ پاک تعجب کے ساتھ منافقوں کا حال بیان فرماتا ہے کہ ہر سال ایک دو دفعہ ان کی آزمائش ہوتی ہے قحط بھی پڑتا ہے بیماریوں کی مصیبت جھیلتے ہیں مگر یہ اپنے نفاق میں ایسے ڈھیٹھ ہیں کہ نہ توبہ کرتے ہیں نہ آیندہ خوف کرتے ہیں اور جب کوئی سورت اترتی ہے تو اس میں اپنے عیب کو سن کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگتا ہے کہ کسی نے ہماری طرف دیکھا نہیں اور وہاں سے دب کر سرک جاتے ہیں اور مذمت کی آیت یا سورت کو پورے طور پر نہیں سنتے۔ ابن ماجہ میں ابن عمر ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کم تولنے کے وبال سے اکثر قحط پڑا کرتا ہے 1 ؎ اس حدیث کی سند میں اگرچہ ایک راوی خالد بن یزید بن عبدالرحمن ضعیف ہے لیکن مستدرک حاکم اور بیہقی میں بعض حدیثیں 2 ؎ اس مضمون کی ہیں جن سے اس حدیث کی سند کو تقویت حاصل ہوجاتی ہے اس حدیث سے آیت کو یہ تفسیر ہوسکتی ہے کہ جس طرح منافقوں کے نفاق کے سبب سے قحط اور بلا آتی ہے اسی طرح کم تولنے سے خاص مسلمانوں پر بھی یہ بلا آتی ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمر ؓ کی حدیث اوپر گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے منافقوں کا حال اس بکری کے مانند فرمایا 3 ؎ ہے جو اپنے ریوڑ کو بھول کر ادھر ادھر بھٹکتی پھرتی ہے یہ حدیث منافقوں کے ناسمجھ ہونے کی گویا تفسیر ہے کہ یہ لوگ اپنی نافہمی کے سبب سے نہ مسلمانوں کے گروہ میں ہیں نہ منکرین اسلام لوگوں کے گردہ میں۔ مجاہد کے قول کے موافق فتنہ کے معنے یہاں قحط بیماری اور اسی طرح کی آیتوں کے ہیں 4 ؎۔ 1 و 2 ؎ الترغیب والترہیب ج 2 ص 13 الترہیب من بخس الکیل والوزن 3 ؎ صحیح مسلم ج 2 ص 370 کتاب صفات المنافقین۔ 4 ؎ تفسیر ابن جریر ج 11 ص 73۔ 74۔
Top