Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tawba : 17
مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِیْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ١ؕ اُولٰٓئِكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ١ۖۚ وَ فِی النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِلْمُشْرِكِيْنَ : مشرکوں کے لیے اَنْ : کہ يَّعْمُرُوْا : وہ آباد کریں مَسٰجِدَ اللّٰهِ : اللہ کی مسجدیں شٰهِدِيْنَ : تسلیم کرتے ہوں عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں (اپنے اوپر) بِالْكُفْرِ : کفر کو اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ حَبِطَتْ : اکارت گئے اَعْمَالُهُمْ : ان کے اعمال وَ : اور فِي النَّارِ : جہنم میں هُمْ : وہ خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
مشرکوں کو زیبا نہیں کہ خدا کی مسجدوں کو آباد کریں (جبکہ) وہ اپنے آپ پر کفر کی گواہی دے رہے ہوں۔ ان لوگوں کے سب اعمال بیکار ہیں اور یہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔
17۔ 22۔ صحیح مسلم ابوداؤد صحیح ابن حبان تفسیر ابن ابی حاتم میں جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ بدر کی لڑائی میں قریش کے ستر آدمی جو گرفتار ہوئے جن میں حضرت عباس ؓ بھی تھے تو مسلمانوں نے ان ستر آدمیوں کے روبرو بت پرستی اور شرک کی مذمت بیان کی یہ مذمت سن کر حضرت عباس ؓ نے کہا کہ ہم بھی مکہ میں اچھے کاموں میں لگے ہوئے تھے مسجد حرام کو آباد رکھتے تھے حاجیوں کو پانی پلاتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرما دیا کہ بغیر خالص السلام کے یہ اچھے کام اللہ کے نزدیک کچھ قبول نہیں اس سے معلوم ہوا بغیر صفائی عقیدہ کے کوئی ظاہری عمل قبول نہیں ہوتا۔ یہ اچھے کام اللہ کے نزدیک کچھ قبول نہیں اس سے معلوم ہوا بغیر صفائی عقیدہ کے کوئی ظاہری عمل قبول نہیں ہوتا۔ مسند امام احمد صحیح مسلم اور ابن ماجہ میں ابوہریرہ ؓ اور بریدہ ؓ کی روایتیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ ایک صحابی کا اونٹ جاتا رہا تھا اور وہ صحابی اپنے اونٹ کو ڈھونڈ نے کے طور پر اپنے اونٹ کو آواز دے رہے تھے اللہ کے رسول نے ان کو منع کیا اور فرمایا کہ مسجدیں ایسے کاموں کے لئے نہیں بنی ہیں بلکہ مسجدیں تو خالص اللہ کی عبادت کے لئے بنی ہیں اور صحابہ کو مخاطب کر کے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ آئندہ جو شخص اس طرح مسجد میں اونٹ کو آواز دیتا ہوا اور بلاتا ہوا نظر آوے تو اس کے حق میں یہ بددعا کرنی چاہئے کہ اس کا کھویا ہوا اونٹ کبھی نہ ملے۔ ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ شریعت الٰہی کے موافق تو مسجد میں کھوئے ہوئے اونٹ کا بھی پکارنا منع ہے یہ بت پرست لوگ مسجد حرام میں طواف کے وقت اللہ کے نام کے ساتھ بتوں کو پکارتے ایسے لوگوں سے اللہ کی مسجدیں کب آباد ہوسکتی ہیں اللہ کی مسجدیں تو ایسے لوگوں سے آباد ہوسکتی ہیں جو خالص دل سے اللہ کی ہر طرح کی عبادت کرتے ہیں اور یہ بت پرست لوگ حاجیوں کے پانی پلانے اور مسجد حرام میں آنے جانے کہ اللہ کی وحدانیت اور حشر پر ایمان لانے کے اور دین کی لڑائی کے برابر جو سمجھتے ہیں یہ ان کی بےانصافی ہے کیونکہ ہر عبادت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے صحیح طور پر اپنے معبود کو پہچان لیوے بت پرستی کے سبب سے ان لوگوں میں جب یہ بات نہیں ہے تو اللہ کے نزدیک نہ یہ لوگ اللہ کے پہچاننے والوں کے برابر ہوسکتے ہیں نہ ان کی کوئی عبادت خدا شناس لوگوں کی عبادت کے برابر ہوسکتی ہے اس لئے اللہ کی بارگاہ میں تو انہی لوگوں کے نیک کاموں کے بڑے بڑے اجر ہیں جو اللہ کو معبود حقیقی جانتے ہیں اور خالص دل سے اسی کی ہر طرح کی عبادت کرتے ہیں جن کی عبادت میں شرک یا دنیا کے دکھاوے کا کچھ لگاؤ ہے ان کی عبادت رائگاں ہے مسند امام احمد اور صحیح مسلم میں ابوہریرہ ؓ کی روایت سے حدیث قدسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس شخص نے کسی نیک عمل میں سوا اللہ کے کسی دوسرے کو شریک کیا اللہ کی بارگاہ میں ایسے عمل کا ہرگز کچھ اجر نہیں ہے کیونکہ شرک اللہ تعالیٰ کو بہت ناپسند ہے ان آیتوں میں شرک کے سبب سے نیک عملوں کے رائگاں اور خراب ہوجانے کا جو ذکر ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے۔
Top