Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tawba : 41
اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اِنْفِرُوْا : تم نکلو خِفَافًا : ہلکا۔ ہلکے وَّثِقَالًا : اور (یا) بھاری وَّجَاهِدُوْا : اور جہاد کرو بِاَمْوَالِكُمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِكُمْ : اور اپنی جانوں فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ ذٰلِكُمْ : یہ تمہارے لیے خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
تم سبکبار ہو یا گراں بار (یعنی مال و اسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت گھروں سے) نکل آؤ اور خدا کے راستے میں مال اور جان سے لڑو۔ یہی تمہارے حق میں بہتر ہے بشرطیکہ سمجھو !
41۔ اس آیت میں اللہ پاک نے جہاد میں جانے کا حکم فرمایا کہ تم کسی حال میں ہو خواہ تم پر جہاد ہلکا ہو خواہ بھاری ہم تم اپنی جان ومال سے خدا کی راہ میں جہاد کرو مفسروں کے قول خفافاوثقالا کی تفسیر میں بہت مختلف ہیں۔ لیکن صحیح تفسیر وہی ہے جو تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی صحیح قول کے حوالہ سے ہے کہ جن لوگوں کو اللہ کے رسول ﷺ لڑائی پر جانے کا حکم دیں ان لوگوں کا دل خواہ چاہے یا نہ چاہے لیکن ان کو اللہ کے رسول کے حکم کی تعمیل کرنی چاہیے اور ہر سمجھ دار کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ کے رسول کی فرمانبرداری میں اس کی بہتری ہے کیونکہ اس طرح کے لوگ اگر شہید ہوگئے تو جنت میں جاویں گے اور اگر صحیح و سلامت رہے تو عقبے میں اللہ انہیں اجر دیگا اور دنیا میں مال غنیمت جدا حاصل ہوگا۔ ابوہریرہ ؓ کی حدیث صحیح بخاری ومسلم میں ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص محض خدا اور رسول کی فرمانبرداری کے طور پر دین کی لڑائی میں شریک ہوتا ہے اس کا خدا ضامن ہوجاتا ہے اگر وہ واپس آیا تو اجر و غنیمت لے کر پھر آیا شہید ہوا تو جنت میں داخل ہوگا یہ حدیث ذالکم خیر لکم ان کنتم تعلمون کی گویا تفسیر ہے جس سے دین دنیا کی بہتری کا حال اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے جو علماء اس بات کے قائل ہیں کہ جہاد تو خود فرض کفایہ ہے لیکن اللہ کے رسول یا اللہ کے رسول کے قائم مقام جن لوگوں کو لڑائی پر جانے کا حکم دیں تو ان لوگوں کے ذمہ لڑائی پر جانا فرض عین ہوجاتا ہے۔ ان آیتوں کی ترتیب سے ان علماء کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ پہلے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر خفگی فرمائی جو حکم کے بعد بھی لڑائی پر نہیں گئے اور پھر اس آیت میں لڑائی پر جانے کی تائید فرمائی اس ترتیب سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں پر اوپر کی آیت میں خفگی فرمائی تھی اس آیت میں یہ تاکید بھی ان ہی لوگوں کو فرمائی ہے صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ عباس ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمائی کہ اب ہجرت تو باقی نہیں رہی ہاں خالص نیت سے دین کی لڑائی باقی ہے اس لئے جن لوگون کو دین کی لڑائی کا حکم دیا جاوے انہیں اس حکم کی تعمیل ضرور ہے حاصل اس حدیث کا یہ ہے کہ جس طرح فتح مکہ سے پہلے ہجرت کا سفر فرض تھا اسی طرح فتح مکہ کے بعد دین کی لڑائی کے لئے سفر کرنا ان لوگوں پر فرض ہے جن کو دین کی لڑائی پر جانے حکم دیا جاوے ہجرت سے پہلے سفر ہجرت کے فرض عین ہونے میں سب علماء متفق ہیں اس واسطے اس صحیح حدیث کے موافق یہی مسئلہ صحیح قرار پاتا ہے کہ جن لوگوں کو اللہ کے رسول دین کی لڑائی پر جانے کا حکم دیتے تھے ان کے حق میں لڑائی پر جانا فرض عین تھا اور باقی لوگوں کے حق میں فرض کفایہ معتبر سند سے ابوداؤد اور صحیح ابن حبان میں ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ کہ یمن سے ایک شخص آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آیا اور اس نے جہاد میں جانے کی اجازت چاہی آپ نے اس شخص سے پوچھا کہ یمن میں تیرا کوئی رشتہ دار ہے اس شخص نے جواب دیا یمن میں میرے ماں باپ ہیں یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ پہلے اپنے ماں باپ سے جہاد میں جانے کی اجازت حاصل کرلے پھر جہاد میں جانے کا قصد کیجیو اس حدیث سے اکثر علماء نے یہ بات نکالی ہے کہ ماں باپ کی خدمت فرض عین ہے اور جہاد فرض کفایہ ہے اسی واسطے آنحضرت ﷺ نے بغیر اجازت ماں باپ کے جہاد پر جانے کی اجازت اس شخص کو نہیں دی۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ان آیتوں کی ترتیب اور صحیح حدیثوں کے موافق انہیں علماء کا قول صحیح معلوم ہوتا ہے جس اس بات کے قائل ہیں کہ جہاد خود تو فرض کفایہ ہے لیکن شرعی سردار جن لوگوں کو جہاد کا حکم دے ان پر فرض عین ہوجاتا ہے اس صحیح قول کے موافق آیت کی صحیح تفسیر وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی فرض عین وہ ہے جس کا ادا کرنا ہر مسلمان کے ذمہ لازم ہے مثلا جیسے پنجگانہ نماز۔ فرض کفایہ وہ ہے جس کو بعضے مسلمان بھی ادا کر لیویں تو سب مسلمانوں کے ذمہ سے اس کا بوجھ اتر جاوے جیسے مثلا جنازہ کی نماز۔
Top