Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tawba : 46
وَ لَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَهٗ عُدَّةً وَّ لٰكِنْ كَرِهَ اللّٰهُ انْۢبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَ قِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ
وَلَوْ : اور اگر اَرَادُوا : وہ ارادہ کرتے الْخُرُوْجَ : نکلنے کا لَاَعَدُّوْا : ضرور تیار کرتے لَهٗ : اس کے لیے عُدَّةً : کچھ سامان وَّلٰكِنْ : اور لیکن كَرِهَ : ناپسند کیا اللّٰهُ : اللہ انْۢبِعَاثَهُمْ : ان کا اٹھنا فَثَبَّطَهُمْ : سو ان کو روک دیا وَقِيْلَ : اور کہا گیا اقْعُدُوْا : بیٹھ جاؤ مَعَ : ساتھ الْقٰعِدِيْنَ : بیٹھنے والے
اور اگر وہ نکلنے کا ارادہ کرتے تو اس کے لئے سامان تیار کرتے لیکن خدا نے انکا اٹھنا (اور نکلنا) پسند ہی نہ کیا تو ان کو ہلنے جلنے نہ دیا اور (ان سے) کہہ دیا گیا کہ جہاں (معذور) بیٹھے ہیں تم بھی ان کے ساتھ بیٹھے رہو۔
46۔ 47۔ اس آیت میں بھی اللہ پاک نے منافقوں کا حال بیان فرمایا کہ ان لوگوں کا ارادہ پہلے ہی سے اس لڑائی میں شریک ہونے کا بالکل نہ تھا اگر یہ لوگ لڑائی میں شریک ہونا چاہتے تو ضرور سامان جنگ کرتے جس طرح اور لوگوں نے اس کی تیاری کی تھی پھر یہ فرمایا کہ اللہ کو بھی انکا شریک ہونا پسند نہیں تھا اسی واسطے اس نے ان کے دلوں میں نامردی پیدا کردی اور یہ عذر و حیلہ کر کے رہ گئے اور جس طرح عورتیں بچے بیمار اور معذور گھروں میں رہ جاتے ہیں انہیں بھی رہ جانا پڑا یہ خدا کی بہت بڑی مصلحت تھی کیونکہ اگر یہ لوگ بھی لڑائی میں جاتے تو بجائے مدد کے فتنہ و فساد بر پا کرتے مسلمانوں کو خوف دلاتے اور ایسی ایسی باتیں کرتے جس سے مومنوں کے جی چھوٹنے لگتے کیونکہ تم میں وہ لوگ بھی ہیں جو تمہاری باتیں سن سن کر ان منافقوں کو اس کی خبر دیتے رہتے ہیں جاسوسی کرتے ہیں۔ واللہ علیم بالظالمین۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لشکر اسلام میں جو لوگ ان منافقوں کے دوست ہیں جس دوستی کے سبب سے وہ لشکر اسلام کی باتیں جاسوسی کے طور پر ان منافقوں کو پہنچاتے ہیں وہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑتے بلکہ وہ اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں کہ اس جاسوسی اور منافقوں کی سزا بھگتیں گے کیونکہ اللہ کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں ہے اس کو ان جاسوسوں کا اور ان کے دوست منافقوں کا سب کا حال خوب معلوم ہے وہ اپنے علم کے موافق وقت مقررہ پر ان کے عملوں کی پرسش کرے گا قتادہ کے قول کے موافق اگرچہ بعضے مفسروں نے وفیکم سمعون لھم کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان منافقوں کی باتیں سنتے اور مانتے ہیں لیکن حافظ ابو جعفر ابن جریرنے اپنی تفسیر میں قتادہ کہ اس قول کی ضعیف ٹھہرایا ہے اس واسطے مجاہد کے صحیح قول کے موافق آیت کی وہی تفسیر صحیح معلوتی ہے جو اوپر بیان کی گئی کیونکہ اس تفسیر کے مقدمہ میں یہ بات بیان کردی گئی ہے کہ حضرت عبداللہ ؓ ابن عباس کے شاگردوں میں جہاد اختلاف ہو وہاں مجاہد کا قول زیادہ معتبر قرار پاتا ہے کعب ؓ بن مالک بھی ان لوگوں میں ہیں جو تبوک کے سفر میں شریک نہیں ہوئے ان کا قصہ تفصیل سے آگے آوے گا صحیح بخاری میں کعب بن مالک ؓ کے بیٹے عبداللہ بن ابی منافقوں کا سردار احد کی لڑائی کے میدان میں سے لشکر اسلام کے تین سو آدمیوں کو بہکا کر مدینہ کو واپس لے آیا تھا اذا جائک المنافقون میں آویگا کہ اسی عبداللہ بن ابی نے بنی مصطلق کی لڑائی کے وقت اپنے قبیلہ کے انصار کو یہ بہکایا تھا کہ اس لڑائی سے واپس جانے کے بعد مہاجرین کو مدینہ سے نکال دیا جاوے۔ آیت میں یہ جو ذکر ہے کہ اگر ان منافقوں کے دل میں اس سفر کا ارادہ ہوتا تو یہ لوگ سفر کی تیار کا ارادہ پہلے سے کرتے اس کی تفسیر کعب ؓ بن مالک کے قصہ سے یوں ہوسکتی ہے کہ کعب بن مالک ؓ اگرچہ سستی کر کے اس سفر میں نہیں گئے لیکن ان منافقوں کی طرح اس سفر کے ارادہ سے وہ غافل نہیں تھے یہ منافق لوگ اس ارادے سے بھی غافل تھے جس سے معلوم ہوا کہ ان کا ارادہ پہلے ہی سے اس سفر کا نہیں تھا اسی طرح آیت میں یہ جو ذکر ہے کہ اگر یہ منافق لوگ اس لڑائی میں جاتے تو طرح طرح کے فساد بر پا کرتے احد اور بنی مصطلق کا قصہ اس فساد کے برپا کرنے کی تفسیر ہے۔
Top