Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tawba : 50
اِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ١ۚ وَ اِنْ تُصِبْكَ مُصِیْبَةٌ یَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَاۤ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَ یَتَوَلَّوْا وَّ هُمْ فَرِحُوْنَ
اِنْ : اگر تُصِبْكَ : تمہیں پہنچے حَسَنَةٌ : کوئی بھلائی تَسُؤْهُمْ : انہیں بری لگے وَاِنْ : اور اگر تُصِبْكَ : تمہیں پہنچے مُصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت يَّقُوْلُوْا : تو وہ کہیں قَدْ اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑ لیا (سنبھال لیا) تھا اَمْرَنَا : اپنا کام مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے وَيَتَوَلَّوْا : اور وہ لوٹ جاتے ہیں وَّهُمْ : اور وہ فَرِحُوْنَ : خوشیاں مناتے
(اے پیغمبر ﷺ اگر تم کو آسائش حاصل ہوتی ہے تو انکو بری لگتی ہے۔ اور اگر کوئی مشکل پڑتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنا کام پہلے ہی (درست) کرلیا تھا۔ اور خوشیاں مناتے لوٹ جاتے ہیں۔
50۔ 52۔ تفسیر ابن بی حاتم میں جابر ؓ بن عبداللہ کی روایت سے جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ عبداللہ بن ابی وغیرہ منافقین لڑائی کے وقت بناوٹی عذر کر کے جس لڑائی میں شریک نہیں ہوتے تھے اور گھروں میں بیٹھ رہتے تھے اگر اس لڑائی میں مسلمانوں کی فتح ہوتی اور مال غنیمت کا ہاتھ آتا تو دو طرح سے ان منافقین پر یہ امر شاق گزرتا تھا ایک تو یہ کہ ان کے دل میں مسلمانوں کی طرف سے عداوت تھی اس واسطے مسلمانوں کی بہبودی ان کے دل کو اچھی نہیں معلوم ہوتی تھی دوسرے ان کو یہ افسوس ہوتا تھا کہ ہم کیوں نہ گئے جو ہمارے ہاتھ بھی مال لگتا اور اگر مسلمانوں کو کسی لڑائی میں کچھ ضرر پہنچتا تو یہ منافقین اپنی دور اندیشی اور عقل مندی پر نازاں ہو کر کہتے کہ ہم تو ضرر سے بچنے کے لئے پہلے سے ہی عذر کر کے نہیں گئے اللہ تعالیٰ نے ان کے دونوں منصوبوں کے جواب میں یہ آیتیں نازل فرمائیں اور پہلے منصوبہ کا جواب یہ دیا کہ یہ منافق مسلمانوں کی بہبودی پریوں ہی جلتے رہیں گے اور اللہ دن بدن مسلمانوں کو بہبودی دیتا رہے گا اور قریب ہے کہ اللہ کے عذاب آسمانی سے یا مسلمانوں کے ہی تسلط سے یہ منافق نیست ونابود ہوجاویں گے چناچہ ویسا ہی ہوا کہ تھوڑے دنوں میں منافقوں کا نام مدینہ میں باقی نہ رہا دوسرے منصوبہ کا جواب یہ فرمایا کہ مشیت الٰہی میں جس کو جو ضرر پہنچتا ہوتا ہے وہ گھر بیٹھے بھی پہنچتا ہے مشیت الٰہی سے بچنے کا سبب قرار دیتے ہیں اور مسلمانوں کو تسکین فرمائی اور مسلمانوں سے فرمایا کہ تم کو کچھ ضرر نہیں مارے گئے تو شہید ہوئے اور اگر زندہ واپس آئے تو دنیا کا مال غنیمت اور عقبے کا اجر کمایا صحیح بخاری اور مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمر ؓ اور صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ اور انس بن مالک ؓ کی حدیثیں جو اوپر کی آیت کی تفسیر ہیں گذر چکی وہی حدیثیں منافقوں کے دنیا اور عقبے کے آنجام کی تفسیر ہیں اور صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث جو اوپر گذر چکی جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کے اعتقاد سے دین کی لڑائی میں شریک ہوتا ہے اس کی دین ودنیا کی بہبودی کا اللہ تعالیٰ ضامن ہوجاتا ہے۔ یہ حدیث مسلمانوں کے دنیا وعقبے کے انجام کی تفسیر ہے اسی واسطے فرمایا کہ ہر ایک گروہ کو اپنے اپنے انجام کا انتظار کرنا چاہئے ھل تربصون بنا کا ترجمہ شاہ صاحب نے تم کیا جیتوں گے ہمارے حق میں جو کیا ہے یہاں جیتنے کا مطلب انتظار کرنے کا ہے۔ ویتولواوھم فرحون اس کا مطلب یہ ہے کہ بازار یا کسی محفل میں یہ لوگ مسلمانوں کی شکست یا کسی اور مصیبت کی خبر سن پاتے ہیں تو اپنے اپنے گھروں کو گویا بڑی خوش وقتی کی خبر سن کر پلٹتے ہیں۔
Top