Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tawba : 58
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّلْمِزُكَ فِی الصَّدَقٰتِ١ۚ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْا وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْهَاۤ اِذَا هُمْ یَسْخَطُوْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو (بعض) يَّلْمِزُكَ : طعن کرتا ہے آپ پر فِي : میں الصَّدَقٰتِ : صدقات فَاِنْ : سو اگر اُعْطُوْا : انہیں دیدیا جائے مِنْهَا : اس سے رَضُوْا : وہ راضی ہوجائیں وَاِنْ : اور اگر لَّمْ يُعْطَوْا : انہیں نہ دیا جائے مِنْهَآ : اس سے اِذَا : اسی وقت هُمْ : وہ يَسْخَطُوْنَ : ناراض ہوجاتے ہیں
اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں کہ (تقسیم) صدقات میں تم پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ اگر انکو اس میں سے (خاطر خواہ) مل جائے تو خوش رہیں اور اگر (اس قدر) نہ ملے تو جھٹ خفا ہوجائیں۔
58۔ 59۔ اس آیت کی شان نزول وہی قصہ ہے جس کا ذکر صحیحین میں حضرت ابوسعید خدری ؓ کی روایت سے ہے جس کا حاصل یہ ہے ایک شخص نے کہا آپ کچھ مال لوگوں کو تقسیم میں ذرا انصاف فرمائیے آپ نے فرمایا میں ہی ناانصافی کر ونگا تو پھر انصاف کون کرے گا حضرت عمر ؓ نے عرض کیا حضرت ارشاد ہو تو ابھی میں اس شخص کی گردن ماردوں آپ نے فرمایا جانے دو اس کی نسل میں سے واجب القتل لوگ پیدا ہوں گے چناچہ پھر ویسا ہی ہوا اسی قبیلہ اور اسی شخص کی نسل میں خارجی لوگ پیدا ہوئے اگرچہ بعضے مفسروں نے اور شان نزول بھی اس آیت کی بیان کی ہے مگر ان کے مطلب یہ ہے کہ دوسرے قصوں پر بھی اس آیت کا مضمون صادق آتا ہے ورنہ صحیح شان نزول کا یہی قصہ ہے جو صحیحین کی روایت میں موجود ہے۔ اگرچہ ان خارجی لوگوں کے حالات میں علماء نے بڑی بڑی کتابیں تالیف کی ہیں لیکن اس طرح کے قصہ کا حاصل اسی قدر ہے کہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے دوسرے روز جب لوگوں نے حضرت علی ؓ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کی تو اس زمانہ میں حضرت عائشہ ؓ حج کے ارادہ سے مکہ کو گئی ہوئی تھیں ان کے مکہ سے واپسی کے وقت راستہ میں کچھ لوگوں نے حضرت عائشہ ؓ کو اس بات پر آمادہ کیا کہ حضرت علی ؓ کو حضرت عثمان ؓ کے قاتلوں کا پتہ لگانے پر مجبور کیا جاوے اور حضرت علی ؓ اگر اس سے انکار کریں تو ان سے لڑنا چاہئے حضرت عائشہ ؓ کے یہ بہکانے والے لوگ اپنا ارادہ پورا کرنے کے لئے حضرت عائشہ ؓ کو بصرہ لے گئے اور بصرہ میں حضرت عائشہ ؓ کی ساتھ بہت سے لوگ ہوگئے حضرت علی ؓ نے جب یہ خبر سنی تو وہ بھی بصرہ کے ارادہ سے فوج لے کر روانہ ہوئے اور 36 ہجری میں حضرت علی (رح) اور حضرت عائشہ ؓ کی بڑی لڑائی ہوئی جو جمل کی لڑائی کے نام سے مشہور ہے اگر یہ لڑائی بصرہ کے قریب ہوئی ہے لیکن جمل عربی میں اونٹ کو کہتے ہیں اور اس لڑائی میں حضرت عائشہ ؓ پردہ میں اونٹ پر سوار تھیں اس لئے یہ لڑائی اس نام سے مشہور ہوگی اس لڑائی میں حضرت علی ؓ غالب رہے حضرت علی ؓ کے غلبہ اور حضرت عائشہ ؓ کی شکست کا حال سن کر پھر یہی حضرت عثمان ؓ کے قاتلوں کے پتہ لگانے کا جھگڑا معاویہ ؓ نے حضرت علی ؓ سے شروع کیا اور اس جھگڑے کے سلسلہ میں آخر حضرت علی ؓ اور معاویہ ؓ کی بہت بڑی لڑائی 37 ہجری میں ہوئی جو صفین کی لڑائی کے نام سے مشہور ہے صفین ملک شام اور عراق کے مابین میں ایک جگہ ہے ایک مہینہ کے قریب یہ لڑائی رہی اگرچہ اس لڑائی میں غلبہ حضرت علی ؓ کی جانب تھا لیکن عمرو بن العاص ؓ کی صلاح سے پہنچایت پر صلح قرار پائی حضرت علی ؓ کی طرف ابوموسیٰ اشعری ؓ اور معاویہ ؓ کی طرف سے عمروبن العاص ؓ سرپنچ مقرر ہوئے اس پنچایت کی صلح سے ناراض ہو کر جو آٹھ ہزار آدمیوں کے قریب کا ایک گروہ حضرت علی ؓ سے منحرف اور ان کے لشکر سے جدا ہوگیا اسی فرقہ کو خارجی کہتے ہیں اس فرقہ کا سرغنہ عبداللہ بن انالکو تھا پہلے تو حضرت علی ؓ نے اس فرقہ کی فہمایش کے لئے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو حروراء مقام پر بھیجا یہ حروراء وہ جگہ ہے جہاں ان لوگوں نے سکونت اختیار کی تھی اس سبب سے یہ فرقہ حروریہ کہلاتا ہے حضرت عبداللہ بن عباس کی فہمایش سے یہ لوگ چند روز کے لئے راہ راست پر آگئے اور پھر ان لوگوں نے مسلمانوں کا قتل راہزنی اور طرح طرح کے فساد برپا کئے جن کے سبب سے حضرت علی ؓ نے ان پر چڑھائی کی اور نہروان مقام پر اس فرقہ کی اور حضرت علی ؓ کی لڑائی ہوئی اس لڑائی میں خارجی فرقہ کے لوگ یہاں تک قتل ہوئے کہ صرف دس بارہ آدمی ان میں سے بچ گئے ذوخویصرہ بھی اس لڑائی میں مارا گیا یہ وہی شخص ہے جس نے حنین کے مال کی تقسیم کے وقت آنحضرت ﷺ کی تقسیم پر اعتراض کیا تھا نہروان کی لڑائی میں سے دس بارہ خارجی جو بچ گئے تھے عبدالرحمن بن ملجم بھی ان میں ہی تھا جس نے موقع پاکر حضرت علی ؓ کو شہید کیا حضرت علی ؓ کی موجوگی تک تو یہ خارجی فرقہ دبا رہا پھر حضرت علی ؓ کی شہادت کے بعد ان لوگوں کا ایک جتھا ہوگیا اور کئی دفعہ ان لوگوں نے سراٹھایا خلفائے بنی امیہ میں سے عبدالملک بن مروان اور خلفائے عباسیہ میں سے محمد بن منصور مہدی کے زمانہ میں ان کی لڑایاں مشہور ہیں حضرت عثمان ؓ کو اور علاوہ حضرت عثمان کے جمل اور صفین کی لڑائی میں جتنے صحابہ شریک تھے ان سب کو یہ خارجی دائرہ اسلام سے خارج گنتے ہیں اور سوا اس کے اور بہت سی باتیں اس فرقہ کی طریقہ اسلام کے برخلاف ہیں اسی واسطے آنحضرت ﷺ نے اس فرقہ کو واجب القتل فرمایا اس سے زیادہ حال ان لوگوں کا بڑی کتابوں میں ہے آخر کو فرمایا کہ جو لوگ تقسیم مال پر اعتراض کرتے ہیں اگر وہ اللہ اور اللہ کے رسول کی تقسیم پر رضامند ہو کر آیندہ کی بہبودی کا بھروسہ اللہ پر کریں تو ان کے حق میں بہتر ہے جس مال کی تقسیم پر اعتراض کئے جانے کا ذکر آیت میں ہے اس مال کو بعضے علماء تو زکوۃ کا مال کہتے ہیں اور بعضے حنین کی لڑائی کا غنیمت کا مال کہتے ہیں سبب اس اختلاف کا یہ ہے کہ صحیح بخاری کی ابوسعید خدری ؓ کی بعض روایتوں میں یہ ہے کہ یمن سے کچھ زکوۃ کا مال آیا تھا اس کی تقسیم پر یہ اعتراض کیا گیا تھا اور صحیح بخاری کی عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت میں یہ ہے کہ حنین کی غنیمت کے مال کی تقسیم کے وقت ایک شخص نے اعتراض کیا تھا لیکن عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت میں یہ ذکر نہیں ہے کہ وہ شخص وہی ذوالخویصرہ حرقوص تھا جس کی نسل سے خارجیوں کا سلسلہ چلے گا بلکہ بعض روایتوں میں اس حنین کے قصہ والے شخص کا نام معتب بن قشریر بتلایا گیا ہے اس اختلاف کے رفع کرنے کی غرض سے اگر ان دونوں قصوں کے مجموعہ کو آیت کی شان نزول قرار دیا جاوے تو پھر کچھ اختلاف باقی نہیں رہتا۔
Top