Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tawba : 65
وَ لَئِنْ سَاَلْتَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ١ؕ قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰیٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ
وَلَئِنْ : اور اگر سَاَلْتَهُمْ : تم ان سے پوچھو لَيَقُوْلُنَّ : تو وہ ضرور کہیں گے اِنَّمَا : کچھ نہیں (صرف) كُنَّا : ہم تھے نَخُوْضُ : دل لگی کرتے وَنَلْعَبُ : اور کھیل کرتے قُلْ : آپ کہ دیں اَبِاللّٰهِ : کیا اللہ کے وَاٰيٰتِهٖ : اور اس کی آیات وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول كُنْتُمْ : تم تھے تَسْتَهْزِءُ وْنَ : ہنسی کرتے
اور اگر تم ان سے (اس بارے میں) دریافت کرو تو کہیں گے کہ ہم تو یوں ہی بات چیت اور دل لگی کرتے تھے۔ کہو کیا تم خدا اور اسکی آیتوں اور اس کے رسول ﷺ سے ہنسی کرتے تھے ؟
65۔ 66۔ تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور قتادہ سے جو شان نزول ان آیات کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت کے زمانہ میں ایک جماعت منافقین کی تھی کبھی تو وہ آنحضرت کی شان میں خفیہ طور پر بدگوئی کرتے رہے اور کبھی قرآن شریف کی شان میں کچھ کچھ کہتے تھے اور جب ان سے دریافت کیا جاتا تو صاف مکر جاتے اور کہتے تھے کہ ہم تو اور آپس کی باتیں کر رہے تھے ان کا حال ظاہر ہوجانے کی غرض سے اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں تفسیر ابن مردو یہ تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور قتادہ کی جو روایتیں ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ منافق لوگ تبوک کے سفر میں لشکر السلام کے ساتھ تھے اور انہوں نے اپنی عادت کے موافق لشکر اسلام میں کمزوری پھیلانے اور دین اسلام میں رخنہ ڈالنے کی بہت سی باتیں خفیہ طور پر آپس میں کیں کوئی کہتا تھا جن لوگوں سے ہم لڑنے کو جا رہے ہیں اندازے سے تو یہ معلوم ہوتا کہ وہ لوگ ہم کو قید کر کے اور ہاتھ پیر رسیوں سے باندھ کر ڈال دیویں گے کوئی کہتا تھا کہ اگرچہ محمد ﷺ کا قول ہے کہ کبھی نہ کبھی روم کے ملک پر اہل اسلام کا قبضہ ہوجاویگا مگر ہم کو تو اس کا یقین نہیں آتا کوئی کہتا تھا کہ محمد ﷺ اپنے بعد قرآن کو لوگوں کی ہدایت کے لئے کافی بتلاتے ہیں لیکن ہم کو تو قرآن اللہ کا کلام نہیں معلوم ہوتا ان لوگوں کی ان باتوں پر اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر فرمایا کہ اے رسول اللہ کے اگر تم ان باتوں کا حال منافقوں سے دریافت کر دو گے تو یہ لوگ صاف کہہ دیں گے کہ مسافر لوگ رستہ کٹ جانے کی غرض سے جس طرح راستہ میں دل لگی کی باتیں کرتے ہیں ہم تو اس طرح آپس میں دل لگی کی باتیں کر رہے تھے لیکن ان لوگوں کا یہ عذر بالکل غلط ہے دل لگی کے لئے دنیا کی اور ہزاروں باتیں تھیں کیا یہی لشکر اسلام میں کمزوری پھیلانے اور دین اسلام میں رخنہ ڈالنے کی باتیں ان کے دل لگی کے لئے دنیا میں تھیں یہ لوگ ظاہری اسلام جو جتلاتے تھے ان باتوں کے منہ سے نکالنے کے سبب سے اب وہ بات بھی جاتی رہی کیونکہ ان باتوں کے منہ سے نکالنے سے یہ لوگ ظاہر و باطن سب طرح کافر ہوگئے۔ اب آخر کو فرمایا کہ علم آلہی کے موافق جو لوگ ان میں کے خالص دل سے توبہ کرلیں گے تو ان کے پچھلے گناہ اللہ تعالیٰ معاف کر دیگا اور جو لوگ اس منافقانہ حالت پر مرجاویں گے وہ اپنے ظاہری اسلام سے پہلے اور ظاہری اسلام سے پچھلے سب اعمالوں کی سزا بھگتیں گے صحیح مسلم میں عمرو بن العاص ؓ کی روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اسلام لانے سے ہر شخص کے پچھلے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص خالص دل سے اسلام میں داخل ہو کر ظاہر و باطن سب طرح سے اسلامی احکام کا پابند ہوگا اسلام نہ لانے کے سبب سے ایسے شخص کے پچھلے سب گناہوں کا وبال عقبیٰ میں بھگتنا پڑے گا صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث بھی ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی نظر انسان کی ظاہری حالت پر نہیں ہے بلک اللہ تعالیٰ کی نظر تو ہمیشہ انسان کے دل پر لگی رہتی ہے کہ نیک کام کرتے وقت انسان کے دل میں کسی طرح کی کھوٹ تو نہیں ہے تو نہیں ہے ان حدیثوں کو ان دونوں آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیتوں اور حدیثوں کے ملانے سے یہ مطلب ٹھہرتا ہے کہ آیتوں میں جن منافقوں کا ذکر ہے ان میں سے جتنے شخصوں نے منافق پن کو چھوڑ کر خالص دل سے ظاہر و باطن ہر طرح اسلام کی پابندی اختیار کی ان کو توبہ اور آئندہ کے خالص اسلام نے فائدہ پہنچایا اور ان میں کے جو لوگ دل میں کھوٹ رکھتے ہیں اور ظاہر میں اپنے آپ کو مسلمان جتلاتے تھے اللہ تعالیٰ کی نظر ان کے دل پر ہی پڑی اس لئے جہاد میں ان کا لشکر اسلام کے ساتھ رہتا اور اوپرے دل سے ارکان اسلام کا بجالانا ان لوگوں کے کچھ کام نہ آیا عمر وبن العاص ؓ کی روایت کو عبداللہ ؓ بن مسعود کی روایت سے ملایا جاوے تو یہ مطلب بھی اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ بغیر خالص دل کے اسلام لانے کے پچھلے گناہ معاف نہیں ہوتے۔
Top