Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tawba : 75
وَ مِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ لَئِنْ اٰتٰىنَا مِنْ فَضْلِهٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان سے مَّنْ : جو عٰهَدَ اللّٰهَ : عہد کیا اللہ سے لَئِنْ : البتہ۔ اگر اٰتٰىنَا : ہمیں دے وہ مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل لَنَصَّدَّقَنَّ : ضرور صدقہ دیں ہم وَلَنَكُوْنَنَّ : اور ہم ضرور ہوجائیں گے مِنَ : سے الصّٰلِحِيْنَ : صالح (جمع)
اور ان میں بعض ایسے ہیں جنہوں نے خدا سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ ہم کو اپنی مہربانی سے (مال) عطا فرمائے گا تو ہم ضرور خیرات کیا کریں گے اور نیکو کاروں میں ہوجائیں گے۔
75۔ 78۔ اللہ پاک نے ان آیتوں میں فرمایا کہ بعضے منافق ایسے بھی ہیں جو قول وقرار کر کے پھرجاتے ہیں اپنا عہد و پیمان پورا نہیں کرتے ہیں ان کے دلوں میں مرتے دم تک منافق اپنے کا اثر رہے گا مطلب یہ ہے کہ مرتے دم تک ایسے لوگوں کو توبہ کی توفیق نہ ہوگی طبرانی ابن ابی حاتم اور ابن جریر میں ابوامامہ ؓ اور عبد ؓ اللہ بن عباس کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ایک شخص ثعلبہ بن حاطب انصاری تھا اس نے آنحضرت ﷺ سے کہا کہ آپ میرے واسطے دعا کریں کہ میں مالدار ہوجاؤں آپ نے فرمایا کہ تھوڑا مال جس کا شکر بندے سے ادا ہو سکے وہی بہتر ہے اور اگر خدا نے زیادہ دولت دی انسان غفلت میں پڑھ گیا تو وہ کسی طرح بھی اچھی دولت نہیں ہے مگر ثعلبہ نے دوبارہ آنحضرت سے کہا کہ اگر مجھے مال مل جائے گا تو میں بہت خیرات کروں گا اور غفلت میں نہ پڑوں گا آپ نے اس کے لئے دعا فرمائی اس کی بکریوں میں یہاں تک برکت ہوئی کہ مدینہ کے جنگل کی زمین ان بکریوں کے چرنے کو کافی نہیں ہوتی تھی آخر وہ مدینہ سے نکل کر کسی گاؤں میں چلا گیا اور وہیں رہنے لگا اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے محروم ہوگیا بلکہ جمعہ میں بھی حاضر ہونے سے عاجز ہوگا حضرت نے لوگوں سے پوچھا کہ ثعلبہ کا کیا حال ہے لوگوں نے بیان کیا کہ وہ خراب ہوگیا مال و دولت کی محبت میں پڑگیا بہرحال جب زکوۃ دینے کا وقت آیا تو اس نے نہیں دی اور کہنے لگا کہ یہ مال دینا تو گویا چٹی کا دینا ہے غرض کہ ایسی ویسی باتیں کر کے ٹال دیا تھوڑے دنوں بعد حضرت کے پاس زکوٰۃ لے کر آیا آپ نے قبول نہ کی اور آنحضرت کے بعد حضرت ابوبکر ؓ و حضرت عمر ؓ کی خلافت میں بھی اس کا مال زکوۃ میں نہ لیا گیا یہاں تک کہ حضرت عثمان ؓ کی خلافت میں اس کا انتقال ہوگیا ابوامامہ ؓ سے جو شان نزول کی روایت ہے اس کی سند میں ایک راوی علی بن یزید الیمانی ضعیف ہے لیکن حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت کی سند میں یہ راوی نہیں ہے اس واسطے یہ شان نزول صحیح ہے پھر اللہ پاک نے یہ فرمایا کہ نفاق جو ان کے دلوں میں جگہ پکڑ گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وعدہ کر کے قائم نہ رہے وعدہ کے خلاف کیا حضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ منافق کی تین علامتیں ہیں جب باتیں کرے تو جھوٹ بولے اور جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے اس حدیث کو ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے پھر اللہ پاک نے فرمایا یہ منافق اپنے دلوں میں یہ سجھے ہونگے کہ اللہ ان کے دلوں کی دغا بازی کو نہیں جانتا وہ تو ظاہر اور چھپی باتوں کو یکساں جانتا ہے وہ بڑا ہی غیب دان ہے اس کے نزدیک کوئی بات پوشیدہ نہیں رہ سکتی اور جب سب باتوں کو کھلم کھلاوہ جانتا ہے تو وہ ہر ایک عمل مخفی پر بندوں کو جز اسزا بھی دیگا۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی نظر انسان کی ظاہری حالت پر نہیں ہے بلکہ اللہ کی نظر تو ہمیشہ انسان کے دل پر ہے کہ اس کا دلی اعتقاد کیا ہے۔ معتبر سند سے طبرانی اور مسند بزار میں انس ؓ بن مالک کی روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن جب لوگوں کے اعمال نامے اللہ تعالیٰ کے روبرو پیش ہوں گے تو بعضے نیک عمل اگرچہ فرشتوں کو پورے اور لائق ثواب نظر آویں گے لیکن اللہ تعالیٰ فرمادے گا کہ یہ عمل خالص نیت سے نہیں کئے گئے اس واسطے ان کو اعمال ناموں میں سے نکال ڈالا جاوے۔ آیت میں منافقوں کے خفیہ مشوروں اور دل کے بھیدوں کا یہ جو ذکر ہے کہ وہ سب اللہ کو معلوم ہیں یہ حدیثیں گویا اس کی تفسیر ہیں جس تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو انسان کے دل تک کا حال معلوم ہے اور اسی دل کے ارادہ اور نیت پر اس نے جزا اور سزا کا مدار رکھا ہے۔
Top