Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tawba : 93
اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَى الَّذِیْنَ یَسْتَاْذِنُوْنَكَ وَ هُمْ اَغْنِیَآءُ١ۚ رَضُوْا بِاَنْ یَّكُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِ١ۙ وَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں (صرف) السَّبِيْلُ : راستہ (الزام) عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَسْتَاْذِنُوْنَكَ : آپ سے اجازت چاہتے ہیں وَهُمْ : اور وہ اَغْنِيَآءُ : غنی (جمع) رَضُوْا : وہ خوش ہوئے بِاَنْ : کہ يَّكُوْنُوْا : وہ ہوجائیں مَعَ : ساتھ الْخَوَالِفِ : پیچھے رہ جانیوالی عورتیں وَطَبَعَ : اور مہر لگا دی اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل فَهُمْ : سو وہ لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
الزام تو ان لوگوں پر ہے جو دولتمند ہیں اور (پھر) تم سے اجازت طلب کرتے ہے (یعنی اس بات سے) خوش ہیں کہ عورتوں کے ساتھ جو بیچھے رہ جاتی ہیں (گھروں میں بیٹھ) رہیں خدا نے انکے دلوں پر مہر کردی ہے۔ پس وہ سمجھتے ہی نہیں۔
92۔ 96۔ اوپر کی آیتوں میں ان لوگوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا جو اپاہج بڈھے یا مفلس ہونے کے سبب سے لڑائی پر نہیں گئے اور ان لوگوں کو معذور ٹھہرا کر یہ فرمایا تھا کہ یہ لوگ سرزنش کے قابل نہیں ہیں ان آیتوں میں فرمایا کہ اصلی سرزنش کے قابل وہ لوگ ہیں جو باوجود دولت مند ہونے اور ہٹے کٹے ہونے کے اللہ کے رسول کا ساتھ چھوڑ کر بیٹھ رہے اور آگے کی آیتوں میں دور تک ان لوگوں کا ذکر ہے جس ذکر میں ان لوگوں کی تین قسمیں ہیں ایک توہ جنہوں نے آنحضرت سے جھوٹے عذر کئے ان کی نسبت فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی نہیں اور اللہ نے ان کے لئے سخت عذاب رکھا ہے دوسرا وہ گروہ ہے جنہوں نے اپنے قصور پر خود قائل ہو کر اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھ دیا تھا جن کی توبہ جلدی قبول ہوگئی تیسرا گروہ ان تین آدمیوں کا ہے جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے مدینہ میں واپس آنے کے بعد آنحضرت کے روبرو اپنے قصور کا سچا اقرار کیا اور کوئی جھوٹا عذر نہیں گھڑا ان کی توبہ پونے دو مہینے کے بعد قبول ہوئی۔ ان آیتوں میں پہلی قسم کے لوگوں کا ذکر ہے باقی کے دو قسم کے لوگوں کا ذکر آگے آویگا حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ ان لوگوں کو عقبی کے عذاب وثواب کا یقین نہیں ہے اس لئے رات دن بیدھڑک یہ لوگ طرح طرح کے گناہوں میں گرفتار رہتے ہیں اور کثرت گناہوں سے ان کے دل پر ایسا زنگ چھا گیا ہے کہ اس زنگ کے سبب سے ان کا دل ناپاک ہوگیا ہے جس سے جہاد کی خوبی کی یا اور کسی نیک بات کے سمجھنے کی صلاحیت ان کے دل میں نہیں رہی ہے پھر فرمایا اے رسول اللہ کے تم اور تمہارے ساتھ کے مسلمان جب مدینہ میں جاؤ گے تو یہ لوگ طرح طرح کے عذر کریں گے اس پر ان لوگوں کو یہ جواب دے دیا جاوے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل کا حاصل ہم کو بتلا دیا ہے اس لئے اب تو ہم تمہارے عذروں کی صداقت نہیں کرسکتے ہیں تمہاری آئندہ کی حالت پر اللہ اور اس کے رسول کی نظر ہے کہ آئندہ تم اسلام کے ساتھ کیسا برتاؤ رکھتے ہو اور اسلام کے ساتھ جیسا برتاؤ آئندہ تم لوگ رکھو گے ویسا ہی برتاو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ برتے گا کیونکہ سزا و جزا کے لئے ایک دن سب کو اس غیب دان کے روبرو حاضر ہونا ضروری ہے پھر فرمایا تمہاری واپسی کے وقت قسمیں کھا کھا کر اس لئے یہ لوگ عذر کریں گے کہ تم ان کو کوئی ظاہری سر زنش نہ کرو اب ان لوگوں کے دل جب بد اعتقادی کے سبب سے ایسے ناپاک ہیں کہ کوئی نصیحت ان کو پاک نہیں کرسکتی تو تم بھی ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو کیونکہ علم الٰہی میں جو لوگ دوزخی ٹھہر چکے ہیں ان کے دل پر کسی سرزنش کا کچھ اثر نہیں ہوسکتا پھر فرمایا تم کو ان کو بداعتقادی اور دل کی گندگی کا حال معلوم نہیں اس لئے اگر بالفرض اپنی جھوٹی قسموں پر یہ لوگ تم کو کچھ رضامندی کرلیں تو کرلیں مگر اللہ کو تو ان کے دلوں کا حال ذرا ذرا معلوم ہے اس واسطے جب تک منافق پنے کی گندگی سے یہ لوگ اپنے دلوں کو پاک نہ کریں گے اس وقت تک ایسے بےحکم لوگوں سے نہ اللہ راضی ہوسکتا ہے نہ بارگاہ الہی میں تمہاری رضامندی ان کے کچھ کام آسکتی ہے معتبر سند سے ابوہریرہ ؓ کی ایک حدیث ترمذی نسائی ابن ماجہ وغیرہ کے حوالہ سے اوپر گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا بغیر توبہ کے گناہوں کی کثرت سے آدمی کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے جو اس کے تمام دل کو گھیر لیتا ہے اسی طرح صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث بھی گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی نظر انسان کی ظاہری حالت پر نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی نظر تو ہمیشہ انسان کے دل پر لگی رہتی ہے کہ انسان ہر ایک کام دل کے کس ارادہ اور نیت سے کرتا ہے آیتوں اور حدیثوں کے ملانے سے آیتوں کی وہی تفسیر قرار پاتی ہے جو اوپر بیان کی گئی کہ ان لوگوں کے دل میں عقبیٰ کے عذاب کا خوف نہیں ہے اس لئے ہر وقت یہ لوگ نہیں اس واسطے مسلمان لوگ ان منافقوں کے اوپری دل کے عذروں اور ان کی جھوٹی قسموں سے دھوکا کھاسکتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی نظر تو ان منافقوں کے دل پر لگی ہوئی ہے اور اس کو ان کے ہر ایک ولی ارادہ کا حال معلوم ہے اس لئے جب تک ان لوگوں کے دل سے یہ منافق پن کی گندگی نہ جاوے گی اور یہ لوگ صاف دل سے پورے مسلمان بن کر اپنے ظاہر و باطن کو یکساں نہ کریں گے اس وقت تک ان کا اوپری دل کا کوئی عذر اور کوئی عمل نہ بارگاہ الہٓی میں مقبول ہوسکتا ہے نہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی انہیں حاصل ہوسکتی ہے :۔
Top