1۔ 8۔ سینے کے کھول دینے کا یہ مطلب ہے کہ آپ کے سینہ پر جو دل کا قلعہ کہلاتا ہے شیطان کا کسی طرح کا کچھ تسلط باقی نہیں رہا۔ چناچہ صحیح 2 ؎ مسلم میں حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ اور شیطان کے شیاطینوں میں سے ایک شیطان ہر شخص کے ساتھ ہر وقت رہتا ہے اللہ کے فرشتہ نیک کام کی رغبت دلانے کے لئے ہے اور شیطان برے کام کی رغبت کے لئے مگر میرے شیطان کو اللہ تعالیٰ نے میرا ایسا فرمانبردار کردیا ہے کہ وہ بجائے برے کام کی رغبت کے نیک کام کی رغبت مجھ کو دلاتا رہتا ہے اسی مطلب کی صحیح 3 ؎ مسلم میں حضرت انس ؓ کی وہ روایت ہے۔ جس میں آپ ﷺ کے سینہ کے چاک کئے جانے اور آپ ﷺ کے دل سے حصہ شیطانی کی ایک سیاہی کے نکال ڈالنے کا ذکر ہے غرض ان روایتوں سے معلوم ہوا کہ نیک بات کے قبول کرنے میں وہ تنگ دلی جس کا ذکر سورة انعام میں گزر چکا ہے آپ کے دل سے بالکل جاتی رہی اور بجائے وسوسات شیطانی کے نور ایمانی دل میں بھر گیا جس سے احکام وحی کی پوری گنجائش آپ ﷺ کے نورانی قلب میں پیدا ہوگئی چناچہ تفسیر ابن جریر 1 ؎ اور ابن ابی حاتم میں حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی روایتیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ بعض صحابہ ؓ نے آنحضرت ﷺ سے سینہ کے کھل جانے کا مطلب پوچھا تھا تو آپ ﷺ نے یہی مطلب بیان فرمایا جو اوپر بیان کیا گیا۔ اس روایت کے چند طریقے ہیں جس کے سبب سے ایک سند کو دوسری سند سے تقویت ہوجاتی ہے بعد اس کے ترک اولیٰ اور سہو سے جو دل پر کچھ بوجھ تھا لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وما تاخر سے وہ بوجھ بھی ہلکا کردیا۔ اور قرآن کی چند آیتوں میں خطبہ اذان تکبیر التحیات میں اے نبی اللہ کے اللہ نے اپنے نام کے ساتھ تمہارے نام کا ذکر رکھا جس سے تمہارا نام مشہور ہوا۔ مکہ میں آپ ﷺ تنگ دست رہتے تھے اس لئے مشرکین مکہ آپ ﷺ کو تنگ دستی کا طعنہ دیا کرتے تھے۔ اس واسطے آیت فان مع العسریسرا سے اس مکی سورة میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی تنگ دستی کے رفع کردینے کا وعدہ فرمایا اور ہجرت کے بعد وہ وعدہ پورا فرمایا کہ مدینہ میں آپ کو وہ تنگ دستی نہیں رہی بیہقی مستدرک 2 ؎ حاکم تفسیر عبد الرزاق وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ 2 ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرت ﷺ بہت خوش ہوئے اور آپ ﷺ نے فرمایا ایک سختی دو آسانیوں پر کبھی غالب نہ آسکے گی عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ کوئی معرفہ اسم دو دفعہ بولا جائے تو وہ دو اسم ایک سمجھے جاتے ہیں مثلاً زید زید دفعہ بولا جائے تو ایک ہی شخص زید سمجھا جائے گا اور پھر پہاڑ پہاڑ دو دفعہ بولا جائے تو وہ دو پہاڑ سمجھے جائیں گے اس آیت میں عسر کا لفظ الف لام کے آنے کے معرفہ ہے اور یسر کا لفظ نکرہ۔ تو گویا ایک سختی کے ساتھ دو آسانیاں اللہ نے اس آیت میں ذکر فرمائی ہیں۔ اسی واسطے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایک سختی دو آسانیوں پر کبھی غالب نہ آسکے گی۔ مسند بزار 3 ؎ وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ فرمایا کرتے تھے سختی اگر پتھر کے اندر گھس کر رہے تو آسانی اس کا پیچھا نہ چھوڑے گی۔ صحیح 3 ؎ حدیث میں ہے کہ نماز کے وقت آدمی کے سامنے اگر کھانا آجائے تو پہلے کھانا کھانا چاہئے پھر نماز پڑھنی چاہئے تاکہ نماز کی حالت میں دل کھانے کے خیال میں نہ لگا رہے یہی مطلب آیت فاذا فرغت فانصب کا ہے کہ دنیا کے ایسے ضروری مشغلوں سے فارغ ہو کر عبادت کرنی چاہئے جن مشغلوں میں آدمی کا دل پڑا ہوا ہے۔
(2 ؎ صحیح مسلم باب تحریش الشیطان بعثہ سرایاہ الخ ص 376 ج 2۔ )
(3 ؎ صحیح مسلم باب الاسراء برسول اللہ ﷺ ص 92 ج 1۔ )
(1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 525 ج 4۔ )
(؎ تفسیر ابن کثیر ص 525 ج 4۔ )
(3 ؎ مشکوٰۃ شریف باب فی الجماعۃ وفضلھا۔ فصل اول۔ ص 95 و 96۔ )