Al-Quran-al-Kareem - Yunus : 28
وَ یَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا مَكَانَكُمْ اَنْتُمْ وَ شُرَكَآؤُكُمْ١ۚ فَزَیَّلْنَا بَیْنَهُمْ وَ قَالَ شُرَكَآؤُهُمْ مَّا كُنْتُمْ اِیَّانَا تَعْبُدُوْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن نَحْشُرُھُمْ : ہم اکٹھا کرینگے انہیں جَمِيْعًا : سب ثُمَّ : پھر نَقُوْلُ : ہم کہیں گے لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کو اَشْرَكُوْا : جنہوں نے شرک کیا مَكَانَكُمْ : اپنی جگہ اَنْتُمْ : تم وَشُرَكَآؤُكُمْ : اور تمہارے شریک فَزَيَّلْنَا : پھر ہم جدائی ڈال دیں گے بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان وَقَالَ : اور کہیں گے شُرَكَآؤُھُمْ : ان کے شریک مَّا كُنْتُمْ : تم نہ تھے اِيَّانَا : ہماری تَعْبُدُوْنَ : تم بندگی کرتے
اور جس دن ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے، پھر ہم ان لوگوں سے جنہوں نے شریک بنائے تھے، کہیں گے اپنی جگہ ٹھہرے رہو، تم اور تمہارے شریک بھی، پھر ہم ان کے درمیان علیحدگی کردیں گے اور ان کے شریک کہیں گے تم ہماری تو عبادت نہیں کیا کرتے تھے۔
وَيَوْمَ نَحْشُرُھُمْ جَمِيْعًا : اس آیت میں بھی کفار کی ایک رسوائی بیان کی گئی ہے کہ جس دن ہم شروع سے آخر تک کے تمام جن و انس، مسلم و کافر اور نیک و بد کو اکٹھا کریں گے (دیکھیے کہف : 47۔ مریم : 93، 94) اس دن شرک کرنے والوں اور جنھیں وہ شریک بناتے رہے ان سب کو بھی اکٹھا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی عظمت و رفعت کے اظہار کے لیے اپنا ذکر جمع کے صیغے سے کیا ہے کہ ”ہم“ جمع کریں گے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کے واحد، احد ہونے میں کیا شک ہے، پورا قرآن ہی یہ سمجھانے کے لیے نازل ہوا کہ وہ ذات پاک وحدہ لا شریک لہ ہے۔ ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا۔۔ : پھر ہم شرک کرنے والوں سے کہیں گے کہ تم اور جنھیں تم نے شریک بنایا تھا اپنی جگہ ٹھہرے رہو، تاکہ تمہارے لیے تمہارے شرک اور شرکاء کی حقیقت واضح ہوجائے۔ فَزَيَّلْنَا بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان علیحدگی کرنے سے مراد ایک تو یہ ہے کہ مسلم و کافر الگ الگ کردیے جائیں گے، جیسا کہ فرمایا : (وَامْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ) [ یٰسٓ : 59 ] ”اور الگ ہوجاؤ آج اے مجرمو !“ اور دیکھیے سورة روم (14 تا 16، 43) اور ایک مطلب یہ ہے کہ شرک کرنے والوں کو اور ان کے قرار دیے گئے شرکاء کو اپنی اپنی جگہ ٹھہرنے کا حکم دے کر ان کی گفتگو کروائی جائے گی۔ مشرک ان سے کہیں گے کہ ہم دنیا میں تمہاری عبادت کرتے رہے، مشکل کے وقت پکارتے رہے، اپنے نفع نقصان کا مالک سمجھتے رہے، قیامت کے دن تمہاری پناہ میں آ کر عذاب سے بچانے کی درخواست کرتے رہے۔ وَقَالَ شُرَكَاۗؤُھُمْ مَّا كُنْتُمْ اِيَّانَا تَعْبُدُوْنَ : وہ شرکاء کہیں گے کہ تم ہماری عبادت تو نہیں کیا کرتے تھے، معلوم نہیں کس کی عبادت کرتے رہے ہو ؟ دنیا میں جن لوگوں کی پرستش کی گئی ان میں سے کچھ وہ تھے جو اپنی پرستش کروانا چاہتے تھے، جیسے فرعون، ابلیس وغیرہ اور کچھ وہ تھے جو یہ نہیں چاہتے تھے، بلکہ اللہ کا شریک کسی کو بھی بنانے سے منع کرتے تھے، جیسے انبیاء و صالحین۔ اب جب اللہ تعالیٰ سب کو جمع کرے گا، تو وہ سب لوگ جن کی عبادت اور پرستش کی گئی اپنے پرستش کرنے والوں سے صاف لاتعلق ہوجائیں گے، جو اپنی پرستش کروانا چاہتے تھے وہ بھی، جیسا کہ سورة بقرہ (165 تا 167) میں مذکور ہے اور وہ بھی جو غیر اللہ کی پرستش سے منع کرتے تھے، جیسا کہ مسیح ؑ اور دوسرے انبیاء و صلحاء۔ ان سب کی اپنی عبادت کرنے والوں سے اور پوجنے پکارنے والوں سے صاف بری اور لاتعلق ہونے کی کئی وجہیں ہوں گی، جن میں سے پہلی وجہ تو یہ ہوگی کہ یہ مشرک تو اللہ کے سوا کسی اور کو بھی عالم الغیب، ان کے حالات سے واقف اور ان کی فریاد سننے والا سمجھتے رہے اور یہ سمجھ کر دن رات یا علی یا حسن یا حسین یا دستگیر یا داتا یا شکر گنج وغیرہ پکارتے رہے، جب کہ ان حضرات کو کچھ خبر ہی نہ تھی کہ کوئی ہمیں پکار رہا ہے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ ۝ وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَهُمْ اَعْدَاۗءً وَّكَانُوْا بِعِبَادَتِهِمْ كٰفِرِيْنَ) [ الأحقاف : 5، 6 ] ”اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو اللہ کے سوا انھیں پکارتا ہے جو قیامت کے دن تک اس کی دعا قبول نہیں کریں گے اور وہ ان کے پکارنے سے بیخبر ہیں۔ اور جب سب لوگ اکٹھے کیے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت سے منکر ہوں گے۔“ دوسری وجہ یہ کہ ان لوگوں کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا بھی کوئی نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے، جب کہ قرآن اترا ہی یہ بتانے کے لیے ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان، مثلاً دیکھیے سورة یونس (106، 107) ، زمر (38) ، مومنون (86 تا 89) ، جن (21) اور بہت سی دیگر آیات۔ اس لیے تمام شرکاء کہیں گے کہ ہمارا اختیار ہی کچھ نہ تھا، معلوم نہیں تم کسے پکارتے تھے، بہرحال ہمیں تو نہیں پکارتے تھے۔ تیسری وجہ یہ کہ مشرک لوگ حقیقت میں صرف اپنے وہم و گمان کے بنائے ہوئے مشکل کشاؤں کی پرستش کرتے رہے، جب کہ وہ سب لوگ جن کو یہ پکارتے رہے، ایک بھی نہ اللہ کا شریک تھا نہ کسی اختیار کا مالک۔ اب اپنے گمان کی پوجا کرکے ان کے نام لگانے پر ان کو غصہ آئے گا۔ دیکھیے سورة یونس (66) چوتھی وجہ یہ ہوگی کہ ان ظالموں کے شرک کی وجہ سے ان انبیاء اور صالحین کی قیامت کے دن اللہ کے دربار میں پیشی پڑجائے گی اور ان سے باز پرس ہوگی اور وہ اپنی صفائی اور لاعلمی کا عذر پیش کریں گے، تو ان کے شرک کی وجہ سے، سوال کی وجہ سے جو ان کے دل پر گزرے گی اور پیشی پڑنے پر جو فکر مندی ہوگی ہم اندازہ ہی نہیں کرسکتے کہ اس کی وجہ سے وہ ان سے کس قدر بےزار اور ان کے کتنے زبردست دشمن ہوں گے۔ دیکھیے سورة مائدہ (116 تا 118) رہے وہ بادشاہ اور پیر اور شیطان جو اپنی پرستش کروانا چاہتے تھے اور ان کو شرک پر لگانے والے تھے، وہ خود اپنی مصیبت میں گرفتار ہوں گے، وہ ان کے قابو کہاں آئیں گے، حتیٰ کہ شیطان بھی کہے گا کہ میں نے تم پر کوئی فوج بھیجی تھی ؟ محض تمہیں دعوت دی تھی، تم نہ مانتے، اب نہ میں کسی طرح تمہاری مدد کرسکتا ہوں نہ تم میری۔ دیکھیے سورة ابراہیم (21، 22)۔ اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ شرک صرف پتھر کے بتوں یا قبروں کو پکارنے ہی کا نام نہیں بلکہ ان شخصیتوں کو پکارنا ہے جن کے وہ بت ہیں یا قبریں ہیں، ورنہ بت بنانے کی ضرورت کیا تھی، کسی بھی پتھر کو پوج لیتے، بت اور قبر کی نیاز اور سجدے کا صاف مطلب ان شخصیتوں کی پرستش ہے جن کے وہ بت یا قبریں ہیں۔ دیکھیے سورة نوح کی آیت (23) کی تفسیر۔
Top