Al-Quran-al-Kareem - Yunus : 39
بَلْ كَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِهٖ وَ لَمَّا یَاْتِهِمْ تَاْوِیْلُهٗ١ؕ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظّٰلِمِیْنَ
بَلْ : بلکہ كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِمَا : وہ جو لَمْ يُحِيْطُوْا : نہیں قابو پایا بِعِلْمِهٖ : اس کے علم پر وَلَمَّا : اور ابھی نہیں يَاْتِهِمْ : ان کے پاس آئی تَاْوِيْلُهٗ : اس کی حقیقت كَذٰلِكَ : اسی طرح كَذَّبَ : جھٹلایا الَّذِيْنَ : ان لوگوں نے مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَانْظُرْ : پس آپ دیکھیں كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
بلکہ انہوں نے اس چیز کو جھٹلا دیا جس کے علم کا انہوں نے احاطہ نہیں کیا، حالانکہ اس کی اصل حقیقت ابھی ان کے پاس نہیں آئی تھی۔ اسی طرح ان لوگوں نے جھٹلایا جو ان سے پہلے تھے۔ سو دیکھ ظالموں کا انجام کیسا ہوا۔
بَلْ كَذَّبُوْا بِمَا لَمْ يُحِيْطُوْا بِعِلْمِهٖ : یعنی یہ لوگ جو قرآن کو جھٹلا رہے ہیں اور اس پر ایمان نہیں لا رہے، ان کے جھٹلانے کی وجہ صرف یہ ہے کہ انھوں نے نہ اسے پوری طرح جانا اور نہ اس کے مطالب و مضامین سمجھنے کی کوشش کی، ان کی بنیاد جہالت، ہٹ دھرمی اور باپ دادا کی اندھی تقلید پر ہے، انھوں نے محض یہ دیکھ کر کہ قرآن ان کے موروثی عقائد و خیالات کی تردید کرتا ہے، جھٹ سے اس کا انکار کردیا، ورنہ قرآن کا ایسے حقائق کے بیان پر مشتمل ہونا جو ان کے فہم سے بالاتر ہیں اور جن کی تہ تک یہ نہیں پہنچ سکتے کسی طرح بھی جھٹلانے کی وجہ نہیں بن سکتا۔ قصور ان کے فہم کا ہے قرآن کا نہیں۔ (روح المعانی، کبیر) یہی حال ان حضرات کا بھی ہے جو محض اپنے بزرگوں اور اماموں کی تقلید کے چکر میں پھنس کر صحیح حدیث سے انکار کردیتے ہیں، حالانکہ اگر وہ ان صحیح احادیث پر غور کرتے اور انھیں سمجھنے کی کوشش کرتے تو کبھی صحیح حدیث کو رد نہیں کرسکتے تھے۔ وَلَمَّا يَاْتِهِمْ تَاْوِيْلُهٗ : یعنی ان کے قرآن کو جھٹلانے کی اگر کوئی بنیاد ہے تو وہ یہ کہ وہ اس کی تاویل و تفسیر سمجھنے سے قاصر ہیں اور قرآن جن غیبی چیزوں پر مشتمل ہے ان کا وقوع ان کی آنکھوں کے سامنے نہیں ہے، ورنہ اگر وہ غور و فکر کرتے اور جن امور کی پیش گوئی قرآن مجید میں کی گئی ہے ان کے واقع ہونے کا انتظار کرتے تو ان کا انکار از خود ہی زائل ہوجاتا۔ (روح المعانی) ”وَلَمَّا يَاْتِهِمْ تَاْوِيْلُهٗ“ کے متعلق شاہ عبد القادر ؓ فرماتے ہیں : ”یعنی جو وعدہ ہے اس قرآن میں وہ ابھی ظاہر نہیں ہوا۔“ (موضح) فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظّٰلِمِيْنَ : یعنی وہ ظالم سب کے سب برباد ہوگئے، فرمایا : (فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا ۚوَمِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا ۚ وَمَا كَان اللّٰهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ) [ العنکبوت : 40 ] ”تو ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ میں پکڑ لیا، پھر ان میں سے کوئی وہ تھا جس پر ہم نے پتھراؤ والی ہوا بھیجی اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے چیخ نے پکڑ لیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے غرق کردیا اور اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرے اور لیکن وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے۔“ اسی طرح اب یہ بھی اپنی تباہی و بربادی کا سامان کر رہے ہیں۔
Top